سینیٹ الیکشن: آپ نے گھبرانا نہیں


ویسے تو زندگی کے کسی بھی شعبے میں اخلاقیات ہمارے ہاں تقریباً ناپید ہے اور اس کی وجہ ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم قوانین کا احترام کرنا بھی چاہیں تو ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ہمیں کرنے نہیں دیتا۔ مگر ہماری سیاست اس میں سرفہرست ہے۔ حالانکہ سیاست دان جس ایوان میں بیٹھتے ہیں وہاں عوام کے لئے قانون سازی ہونی ہوتی ہے تو پھر وہاں اخلاقیات اور قانون کی عمل داری کی اہمیت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے مگر شومئی قسمت کہ وہاں تو اخلاقیات نامی کوئی بندش ہی نہیں ہے۔

عوام کو اس بات پر احتجاج کرنا چاہیے کہ شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، عمر ایوب اور ان جیسے کئی اور لوگ ہی ہماری تباہی کے ذمہ دار ہیں کیونکہ یہ تو ہمیشہ حکومت ہی کا حصہ رہے ہیں۔

عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایم کیو ایم اور چوہدری صاحبان کو سسٹم میں فیصلہ کن تبدیلیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ تبدیلیاں مزید عوامی استحصال کے سوا کچھ بھی نہیں۔

آج تک ہونے والے تمام الیکشنز میں ، کیا ایوان بالا تو کیا ایوان زیریں ، مدمقابل دو ہی قوتیں رہی ہیں ۔ عوامی اکثریت بمقابلہ جبری اکثریت۔ اور جیتتا وہی ہے جس پر جبری اکثریت بنانے والے یعنی اشرافیہ کی نظر کرم ٹھہر جائے۔ لگتا ہے عوام کو پچھلے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اشرافیہ کا دیا گیا سرپرائز بھول گیا ہے، ویسے اچھا ہی ہے، میرے ہم وطنوں کے لئے تو نسیان سے بڑی شاید ہی کوئی نعمت ہو کہ محض ترین صاحب کی حمایت پر اس کی شدید ترین چوریاں بھی بھول جاتے ہیں اور اپنے امیدوار کے ساتھ کھڑے ہو کے وکٹری سائن والی تصویریں بن موسم بارش جیسی تازگی اور یونہی ٹپک پڑنے والی تبدیلی جیسا احساس دلاتی ہیں۔

جہانگیر ترین صاحب کی اہلیہ آمنہ ترین یوسف رضا گیلانی کی قریبی عزیز ہیں۔ یہ لوگ سیاست میں وابستگیوں اور رشتے داروں کی پوٹلیاں عوام کو بانٹے جانے والے خیراتی تھیلوں سے الگ الگ اور احتیاط سے بناتے ہیں کہ کہیں مفادات کا ٹکراؤ نہ ہو جائے مگر یہ رشتہ بتانا اس لیے ضروری سمجھا کہ آپ کو ترین صاحب کی ملکی سیاست کی جڑوں تک رسائی کا اندازہ ہو سکے۔

ان کی سیاست اشرافیہ کی چھتری تلے نشوونما پاتی ہیں اور اشرافیہ اس جہازی گروپ کو جب چاہے، جس کے ساتھ چاہے فیضیاب ہونے کا موقع دے ڈالے۔ اب دیکھیں 3 مارچ کی فیض یابیاں کس کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔

ترین صاحب کو آنے والے وقت میں بھی محض دو چار روپے قیمت بڑھا کر اربوں کے فائدے اٹھانے ہیں اور ہمیں اسی طرح چینی چور چینی چور کے نعروں کو اپنا مقدر سمجھ کر تھک کر خاموش ہو جانا ہے کہ ترین صاحب کی سپورٹ سے آنے والا اتنا بھی باؤلا بھی نہیں ہو گا کہ چینی چوروں کی بجائے چینی خوروں کا خیال کرنے لگے۔

جو قومیں اپنے حقوق کا ادراک نہیں کرتیں، بس تالیاں بجاتی ہیں، بریانی کی ایک پلیٹ کھا کر گھر واپس آ جاتی ہیں، کفن کے نام پر کٹنے والے چند گز کے سفید لٹھے پر اکتفا کر کے ماڈل ٹاؤن جیسے سانحات کا شکار ہوتی ہیں اور ان کی لاشوں کا سودا کر کے ان کے روحانی پیشوا کسی اور بڑے سانحے تک منظر سے غائب ہو جاتے ہیں، ان کی مدد کو کوئی نہیں آتا۔ بقول شاعر

میں تو جب جانوں کہ بھر دے ساغر ہر خاص و عام

یوں تو جو آیا وہی پیر مغاں بنتا گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments