کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب’خدا کی تاریخ‘


کیرن آرمسٹرانگ ایک عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ہیں۔ برطانیہ میں ویسٹ مڈلینڈ کے علاقے ووسٹر شائر میں 14 نومبر 1944 کو پیدا ہوئیں۔ کیرن آرم سٹرانگ نے اپنی زندگی کے سترہ سال بطور رومن کیتھولک نن بسر کیے، 1969ء میں اپنے مذہبی سلسلے کو چھوڑنے کے بعد انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈگری لی اور جدید ادب پڑھایا، وہ برٹش براڈ کاسٹر برائے مذہبی امور کے فرائض بھی سرانجام دیتی رہیں۔

کیرن کا دائرہ کار اور خیالات کی گہرائی اس سے متفق ہونے کی راہ میں رکاوٹ تو ضرور ہیں لیکن قابل فہم اور واضح ہیں۔ نظریات کی تاریخ کے وسیع دائرے میں توحیدی مذہب سے متعلق کیرن کی عالمانہ تراکیب بہت متاثر کرنے والی ہیں۔

کیرن آرم سٹرانگ کی اب تک کی تصانیف کی تعداد اکیس 24 ہے۔ نیو یارک اوپن سینٹر نے 2004 میں کیرن کو مذہبی روایات اور خدا سے تعلق کا گہرا ادراک رکھنے والی شخصیت قرار دیا۔ 2008 میں انہیں ٹیڈ کانفرنس میں دو اور لوگوں کے ساتھ ادبی انعام سے نوازا گیا۔ 2004 میں روز ویلٹ انسٹی ٹیوٹ نے انہیں ”فریڈم آف ورشپ“ کا اعزاز دیا۔

کیرن کی کتب کا موضوع و مقصد دنیا بھر کے بڑے مذاہب خاص کر اسلام، عیساہیت، اور یہودیت کا ایسا مطالعہ پیش کرنا ہے جس سے ان مذاہب کے ماننے والوں کی آپس میں قربت پیدا ہو۔ ”خدا کی تاریخ“ ان کی سب سے زیداہ پڑھی جانے والی مشہور کتاب ہے۔

کیرن کے کام پر مختلف مذہب کے علماء و محقق حضرات کچھ آراء و نظریات سے اختلاف بھی کیا ہے جیسے اسلام و محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے کچھ بیانات پر مسلمانوں کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے۔

اپنی کتاب ”خدا کی تاریخ“ میں وہ لکھتی ہیں:

’’ابتدائی سیرت نگاروں نے قرآن پہلی مرتبہ سننے پر عربوں کو ہونے والی حیرت کا ذکر کیا۔ بہت سے لوگ اسے سنتے ساتھ ہی ایمان لے آئے، انہیں فوراً یقین آ گیا کہ صرف خدا ہی کے یہ خوبصورت اور مسحور کن الفاظ ہیں، یہی وجہ تھی کہ حضرت محمد ﷺ کے شدید مخالف حضرت عمر بن خطاب قرآن کی آیات سنتے ہی مسلمان ہو گئے تھے۔ ان کے قبول اسلام کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ کلام کی خوبصورتی نے انہیں جاہلیت چھوڑ کر اللہ کے دین میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا۔

یہ قرآن کا ہی معجزہ ہے جس نے خدا کو دور ہی کہیں رکھنے کی بجائے ہر اہل ایمان کے ذہن و دل میں بسا دیا۔ اسلام قبول نہ کرنے والے قریش بھی قرآن کے حوالے سے متضاد آراء رکھتے تھے کیونکہ یہ انہیں تمام جانے پہچانے قواعد و ضوابط سے بالاتر لگتا تھا۔ اس میں کسی کاہن کی کہانت جیسی کوئی چیز نہ تھی نہ ہی یہ کسی جادوگر کا منتر تھا۔ کچھ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ شدید ترین مخالف قریشی بھی کسی سورت کو سننے پر لرز کر رہ گئے۔

یہ ایک نئی تحریر تھی جس نے لوگوں کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا۔ اسلام کی کامیابی میں قرآن کے مسحور کن اثرات اور معجزات نے کافی اہم کردار ادا کیا۔ ہم نے غور کیا ہے کہ بنی اسرائیل کو اپنے مذاہب سے ناتا توڑنے اور وحدانیت قبول کرنے میں کوئی 700 سال لگے تھے لیکن حضرت محمد ﷺ نے یہ کام محض 23 برس میں کر دکھایا۔ رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور قرآن مذہب کی تاریخ میں ایک بے مثال مقام رکھتے ہیں۔‘‘

کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب خدا کی تاریخ میں باب ”اسلام کا خدا“ کے تحت لکھتی ہیں:

’’حضرت محمد ﷺ کے عہد حیات میں تمام جنسوں کی برابری پر زور دیا گیا۔ آج عموماً مغرب میں اسلام کو عورت کے خلاف سمجھا جاتا ہے لیکن عیسائیت کی طرح اللہ کا دین بھی اصل میں عورتوں کے لیے مثبت رویہ رکھتا ہے۔ جاہلی معاشرے میں عورت کے ساتھ عربوں کا سلوک بہت ظالمانہ تھا، مثلاً کثیر الازدواجی عام تھی اور بیویاں اپنے باپ کے گھر میں ہی رہتی تھی۔

امیر طبقہ کی عورتوں کو کافی اثر رسوخ اور اہمیت حاصل تھی۔ مثلاً حضرت خدیجہ الکبری ایک کامیاب تاجر تھیں لیکن اکثریت کی حالت غلاموں جیسی تھی۔ انہیں کوئی سیاسی یا انسانی حقوق حاصل نہ تھے اور بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالنے کا رواج عام تھا۔ قرآن نے بچیوں کو قتل کرنا ممنوع قرار دیا اور عربوں سے کہا کہ وہ لڑکی پیدا ہونے پر سوگ نہ منایا کریں۔ اس نے عورتوں کو ترکے اور طلاق کے قانونی حقوق بھی دیے۔ بہت سے مغربی ممالک کی عورتوں کو انیسویں صدی تک یہ چیزیں حاصل نہ ہو سکی تھیں۔

حضرت محمد ﷺ نے عورتوں کو معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ عورتوں کی جانب سے کیے گئے سوالوں میں ایک اہم ترین سوال یہ تھا کہ قرآن میں صرف مردوں کی بات کیوں کی گئی ہے حالانکہ عورتیں بھی ایمان لائی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اترنے والی وحی میں ہر قسم کا جنسی امتیاز ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد قرآن میں اکثر عورتوں کا ذکر ہونے لگا جو یہودیوں یا عیسائیوں کے مقدس صحائف میں نہیں ملتا۔‘‘

مذہبی تاریخ کے قاری یا اس ضمن میں گہرا شعور رکھنے والے افراد اس کتاب کو زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ کیرن نے اس کتاب میں وہ راستے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جن سے گزر کر خدا کے تصور نے مختلف صورتیں اختیار کیں۔ یہیں پر وہ مختلف مذاہب کے خداؤں کے درمیان مشابہتوں کی جانب توجہ بھی دلاتی ہیں۔ ان کے مطابق تاریخ کے تینوں بڑے وحدانیت پرست مذاہب نے شخصی خدا کا تصور تشکیل دیا جس نے انہیں انسانی حالت کو رفعت دینے کے قابل بنایا۔ کچھ نے مایوسی اور خوف دیکھا، کچھ نے نور اور ماورائیت کا تجربہ کیا۔ ”خدا کی تاریخ“ میں اسی فرق کی تحقیق کی گئی ہے۔

اس کتاب کے مطالعے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ چند ایک پیرا گراف کے درمیان ہی باب ٹوٹ جاتا ہے، نہ سیکشن ہیں نہ عنوانات، مسلسل نثر ہے اور ہر باب کے اخیر پر خلاصہ۔ کتاب کا مواد دلچسپ اور قابل مطالعہ ہے۔ اس میں ایک خدا کی لغوی تفہیم اور بنیاد پرستی کی عالمی ناپسندیدگی کو صوفیانہ نکتہ نطر سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کتاب میں کچھ ایسے مقامات بھی ہیں جہاں تشنگی محسوس ہوتی ہے اور وہ اور زیادہ واضح ہونے چاہیے تھے لیکن شاید ایسا عملی طور پر ممکن بھی نہیں تھا۔

اس کتاب کے ابتدائی باب، بعد کے ابواب سے زیادہ دلچسپ ہیں۔ خاص طور پر جہاں قرون وسطیٰ کے دور کی بات کی گئی ہے۔ دور اصلاح بھی بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے اور اس سے مذہبی تاریخ، جو بہت سے لوگوں کے مطالعے میں نہیں رہی، سمجھنے میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ آخری باب تاریخی نوعیت کا کم اور کیرن کی اپنی رائے زیادہ لئے ہوئے ہے۔ لیکن اس کے مطالعے کے بعد یہی باب کافی دلچسپ نظر آتا ہے اور کیرن کا نقطۂ نظر دعوت فکر دیتا ہے۔

کیرن آرمسٹرانگ

کیرن کی عالمانہ فکر اور مطالعے کی وسعت، مصدقہ ہے۔ مونوتھی ازم سے آغاز کرتی ہوئی وہ یہودیت، عیسایئت اور اسلام، تینوں مذاہب میں خدا کے تصور اور ارتقاء کی تاریخ رقم کرتی ہیں۔ اور یہ انہی کا کمال ہے کہ انہوں نے اس ضمن میں تینوں کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی۔ مذاہب کی تاریخ یا تصورات کی تاریخ لکھنے کی بجائے انہوں نے خدا کی تاریخ مرتب کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments