تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟


جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو فطرت کی جانب سے اس کے دماغ میں ہزاروں لاکھوں ”سافٹ ویئرز“ ڈال دیے جاتے ہیں جو اس کی عمر کے ساتھ ساتھ دنیا میں پیش آنے والی ضرورتوں کے مطابق اجاگر سے اجاگر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ابتداً اسے یہ شعور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی غذا کیسے اور کہاں سے حاصل کرے گا اور اپنی راحتوں اور مشکلات کا اظہار کیسے کرے گا۔ بے شک تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

کوئی بھی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے منہ میں دانت نہیں ہوتے۔ اگر بچے کو دانت پیدائشی طور پر عطا کر دیے جاتے تو ماؤں کا براہ راست انہیں دودھ پلانا کسی طور ممکن ہی نہیں ہو پاتا۔ بے شک تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

عمر کے ساتھ ساتھ شعور بھی پختگی اختیار کرتا جاتا ہے اور دانت بھی ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن دودھ پلانے کا عمل ابھی باقی رہتا ہے۔ اس دوران ماؤں کو یقیناً دقت اٹھانا پڑتی ہے لیکن ایک جانب بچہ ہلکی پھلکی ڈانٹ کا مطلب سمجھنے لگتا ہے تو دوسری جانب اسے کسی کو اذیت یا راحت پہنچانے کی بھی پہچان ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ماؤں کی پریشانی نہایت عارضی ثابت ہوتی ہے اور بچہ اپنے پورے دانتوں کے ساتھ بھی ماؤں کے لئے باعث ایذا نہیں ہوتا۔ بے شک تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

دانت آہستہ آہستہ ابھر کر اپنی خاص اٹھان تک آ کر رک جاتے ہیں یا مزید بڑے نہیں ہوتے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر ان کے باہر آنے کا سلسلہ جاری رہتا تو کیا صورت حال ہوتی۔ بے شک تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

ابتدا یا بچپن میں نکلنے والے دانتوں کو ”دودھ“ کے دانت بھی کہا جاتا ہے جو چھے سات سال کی عمر کے بعد ٹوٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور ٹھیک اسی مقام سے ایک نیا دانت نکلنا شروع ہو جاتا ہے جہاں سے دودھ کا دانت ٹوٹتا ہے۔ ذرا غور کریں کہ دودھ کے دانت ہی قبر تک کے ساتھی ہوتے تو کیا ہوتا۔ ان کے نکلنے اور پھر ٹوٹ کر دوبارہ پختہ دانت نکلنے میں کیا حکمت ہے۔ جب کسی نوزائیدہ بچے کے دانت نکلنا شروع ہوتے ہیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ جلد ہی اس کی غذا کی ضروریات بدلنے والی ہیں اور اس کا معدہ اور آنتیں آہستہ آہستہ اس قابل ہوتی جا رہی ہیں کہ یہ ٹھوس غذا کی جانب جا سکتا ہے چنانچہ مائیں اس کا اہتمام شروع کر دیتی ہیں۔

تین چار سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بچہ قریپ قریب ہر ٹھوس غذا کھانے لگتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ بچہ بڑوں کی طرح اپنے دانتوں کی صفائی نہیں رکھ پاتا اور کچھ بچے چینی اور چاکلیٹ کے حد سے زیادہ شوقین ہوتے ہیں ، اس لئے چھے سات برس تک عموماً سارے بچوں کے دانت نہایت غلیظ یا بد صورت ہو جاتے ہیں۔ اگر دودھ کے دانت ہی عمر بھر کے ساتھی ہوتے تو ممکن کے لوگوں کے دانت کم عمرے میں ہی گل سڑ کر ان کو پوپلا کر دیتے ، اس لئے قدرت نے یہ اہتمام رکھا ہے کہ اس کے دودھ کے دانت ختم کر کے نئے دانت عطا کیے جائیں اور اس عمر میں عطا کیے جائیں جس عمر میں ان کو صاف رکھنے کا شعور آ چکا ہو۔ بے شک تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

انسان جب ضعیفی کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ دانت جیسی نعمت کو ایک ایک کر کے دوبارہ واپس لینا شروع کر دیتا ہے۔ کیا دانتوں کی واپسی میں اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت پوشیدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم انسان کو دوبارہ اس کی پچھلی زندگی، یعنی بچوں جیسے کمزوری کی عمر کی جانب لوٹا دیتے ہیں۔ جب انسان دوبارہ ضعیفی کی جانب لوٹتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا معدہ اور آنتیں لکڑ ہضم پتھر ہضم جیسی رہ جائیں۔

دانت اگر بڑھاپے میں بھی جوانی کی طرح مضبوط، تیز اور جبڑے شیروں جیسے ہوں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان بوٹیاں اور نہایت ثقیل غذا کھانے سے ہاتھ روک سکے۔ ضعیفی میں جوانی کے زمانے جیسا چٹور پن اس کے معدے اور آنتوں کے لئے کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا کوئی بہت دشوار کام نہیں۔ یہی وہ حکمت ہے جو بڑی عمر میں عطا کی گئی نعمت کی واپسی کا سبب ہے۔ بے شک تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

پیدائش پر انسان کتنا نرم و گداز ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی سر کی ہڈی سے لے کر جسم کی ساری ہڈیاں نہایت گداز اور لچکدار ہوتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا اس کی پیدائش کسی اور کی موت کا سبب نہیں بن جایا کرتی۔ بے شک تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

انسان کی پیدائش کے فوراً بعد اس کا جسم بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا یہ بڑھنا دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک لمبائی کی جانب اور ایک چوڑائی کی جانب۔ لمبائی کی ایک حد چھو لینے کے بعد یہ نظام قدرت کی جانب سے ”روک“ کر دیا جاتا ہے لیکن مٹاپے یا چوڑائی کا نظام تاحیات رہتا ہے۔ یہ نظام اس لئے تاحیات رہتا ہے کہ کافی حد تک یہ اختیاری ہے جبکہ لمبائی کا نظام بالکل بھی اختیاری نہیں۔ غور کریں کہ اگر قد بڑھتے رہنے کا سلسلہ عمر کی آخری سانس تک جاری رہتا تو کیا صورت حال ہوتی۔ کیا انسان بادلوں سے باتیں نہیں کر رہا ہوتا اور کیا وہ میلوں لمبے چوڑے اور بلند مکانات بنانے پر مجبور نہیں ہو جاتا؟ بے شک تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

اسی طرح کی نہ جانے کتنی ایسی عطا کردہ نعمتیں انسان کے جسم کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہیں کہ اگر انسان ان سب پر غور کرنے بیٹھ جائے تو بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ”بے شک تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments