سینیٹ کو غیر اسلامی قرار دینے کی تجویز کس کی تھی؟


جارج آرویل کے مشہور ناول 1984 میں ایک ایسے زمانے کی [یا شاید ہمارے زمانے کی] منظر کشی کی گئی ہے جس میں حکومت نے مکمل طور پر عوام کو اپنے شکنجے میں لے لیا ہے۔ اس ناول کا آغاز اس منظر سے ہوتا ہے کہ ونسٹن نامی ایک کمزور شخص اپنے فلیٹ میں داخل ہوتا ہے تو ہر گھر کی طرح اس کے فلیٹ میں بھی ایک بیضوی سکرین لگی ہے جسے ٹیلی سکرین کہا جاتا ہے۔ یہ سکرین حکومت نے لگائی ہے۔ آپ اس کی آواز کو مدھم کر سکتے ہیں لیکن بند نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ایک سرکاری آلہ ہے۔

یہ ایک سکرین بھی ہے اور ایک کیمرہ بھی ہے۔ یعنی اس سے ہر گھر میں حکومت اپنی نشریات مسلسل پہنچا رہی ہوتی ہے اور ہر کان میں یہ خبریں ڈالی جا رہی ہوتی ہیں کہ حکومت کی کاوشوں سے کیا کیا ترقیات ہو گئی ہیں اور یہی ٹیلی سکرین ایک کیمرہ بھی ہے جو کہ ہر گھر کے اندر کے مناظر اور آوازیں مسلسل ایک حکومتی ادارے کو پہنچا رہا ہے۔

یہ حکومتی ادارہ ”سوچ پولیس“ کہلاتی ہے۔ یہ ”سوچ پولیس“ کسی وقت بھی کسی گھر میں اس سکرین کی مدد سے جائزہ لے سکتی ہے کہ اندر کیا باتیں ہو رہی ہیں اور دیکھ سکتی کہ اندر کیا کچھ ہو رہا ہے؟ اور گھر کے بہت کم گوشے ایسے تھے جن میں بیٹھ کر کوئی شخص اس کیمرے کی آنکھ سے محفوظ رہ سکے۔ اور اگر کوئی شہری حکومت کے مقرر کردہ وقت پر ورزش بھی کر رہا ہے ہے تو حکومت اس سکرین سے جائزہ لے سکتی ہے کہ یہ شہری صحیح طرح اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات کے مطابق اچھل کود کر رہا ہے کہ نہیں۔

اور یہ کیمرے کافی نہیں تھے۔ اس سوچ پولیس کے ایجنٹ ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ اس پولیس کا کام ہے کہ وہ ملک کے عوام و خواص کی سوچوں کا جائزہ لیتی رہے کہ کہیں ان کے ذہنوں میں کوئی فاسد اور فضول قسم کے خیالات تو نہیں پیدا ہو رہے۔ وہ حکومت کے موقف پر تابعداری سے یقین کر رہے ہیں کہ نہیں۔ کیونکہ سوچ اور نظریات کا تعلق قومی سلامتی سے ہے اور ایسے نازک معاملات کے بارے میں ان بھولے عوام کو آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا کہ جو جی چاہے سوچتے رہیں۔

شاید یہ ناول پڑھ کر ہماری حکومت کو یہ خیال آیا ہو کہ جب تک ”سوچ پولیس“ نہیں بنتی کم از کم مختلف اسمبلیوں کے ممبران کی نگرانی تو کر لیں کہ سینیٹ کے نئے ممبران کے انتخاب کے لئے صحیح طریق پر پر ووٹ ڈال رہے ہیں کہ نہیں۔ چنانچہ سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوایا گیا کہ سینیٹ کے نئے ممبران کے انتخاب کے لئے خفیہ بیلٹ کے ذریعہ ووٹنگ نہیں ہونی چاہیے۔

آئین کی شق 226 کہتی ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخابات کے سوا ملک میں تمام انتخابات خفیہ رائے دہی سے ہونے چاہئیں۔ اس لیے سپریم کورٹ نے یہ رائے تو نہیں دی کہ سینیٹ کے ممبران کے انتخاب کے لئے خفیہ رائے شماری نہیں ہونی چاہیے لیکن یہ ضرور کہا کہ ضروری نہیں کہ یہ خفیہ رائے شماری اتنی غیر مشروط اور مکمل خفیہ ہو کہ بالکل ہی خفیہ ہو۔ اور سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں یہ اشارہ بھی کر دیا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ الیکشن کمیشن ان انتخابات کو دیانت دارانہ اور منصفانہ بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرے۔

پتہ نہیں کہ الیکشن کمیشن یہ اشارہ سمجھا یا نہیں سمجھا لیکن کسی نے تو یہ مشورہ پلے باندھ لیا اور کل سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے وقت اس ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال نظر آیا۔ چنانچہ جب نئے اراکین حلف اٹھا رہے تھے تو شیری رحمان صاحبہ کے توجہ دلانے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے مصدق ملک صاحب اور مصطفےٰ نواز کھوکھر صاحب نے ہال کا جائزہ لینا شروع کیا تو سینیٹ کے ہال میں جگہ جگہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نظر آیا۔ ایک سکرین کے ساتھ کیمرے لگے تھے تاکہ ووٹ ڈالنے والے اور ووٹ کی پرچی کی ویڈیو بنائی جا سکے اور جس بوتھ پر ممبر نے ووٹ ڈالنا تھا اس میں سوراخ کر کے کیمرے نصب کیے گئے تھے۔

سینیٹ میں رضا ربانی نے شور مچانا شروع کیا تو اعظم سواتی صاحب نے انہیں یہ یاد دلایا کہ حلف برداری کے دوران یہ شور شرابا خلاف قواعد ہے۔ شرفاء کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ حکومتی ترجمان شبلی فراز صاحب نے فوری طور پر اپوزیشن کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کیمرے ضرور اپوزیشن نے لگائے ہوں گے۔ اگر ایسا ہے تو سرکاری عملے کی مستعدی واقعی قابل توجہ ہے اور بعض احباب نے یہ اشارہ بھی کیا کہ یہ کیمرے تو پہلے سے لگے ہوئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ پولنگ بوتھ خود ہی چلتا ہوا کیمرے کے نیچے کھڑا ہو گیا ہو۔

لیکن کیمرے ہٹانے سے تقدیریں نہیں بدلتیں۔ پھر شام کو ہم نے یہ خبر سنی کہ صادق سنجرانی نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کے سات ووٹ مسترد ہو گئے کیونکہ مہر اُن کے نام کے سامنے نہیں بلکہ ان کے نام کے اوپر لگی ہوئی تھی۔

یہ مرحلہ تو بخیر و خوبی طے ہو گیا اور شبلی فراز صاحب نے پوری قوم کو مبارکباد بھی دی ہے اور یہ نوید سنائی کہ پی ڈی ایم کی تدفین ہو چکی ہے۔ لیکن آئندہ کے لئے سینیٹ کو قابو کرنے کا ایک اور طریقہ بھی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر سینیٹ قابو سے باہر ہو تو سینیٹ کو غیر اسلامی قرار دے دیا جائے۔

پڑھنے والے حیران ہوں گے کہ یہ کیا نامعقول بات ہوئی۔ سینیٹ کو کس طرح غیر اسلامی قرار دیا جا سکتا ہے؟ عرض ہے کہ یہ تجویز پہلے ہی پیش کی جا چکی ہے۔ اور یہ تجویز اس وقت پیش کی گئی تھی جب 1973 میں پاکستان کے نئے آئین کے مسودے پر بحث ہو رہی تھی۔ چھوٹے صوبوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک ایوان بالا یعنی سینیٹ کے قیام کی تجویز رکھی گئی تھی جس میں سب صوبوں کی برابر کی نمائندگی ہو۔ جب 8 اپریل 1973 کو سینیٹ پر بحث شروع ہوئی تو ایک ممبر قومی اسمبلی غلام رسول تارڑ صاحب نے کہا :

”جناب والا میں عرض کروں گا کہ سینیٹ کا تخیل جو اس مسودہ قانون میں محفوظ کیا گیا ہے وہ غیر اسلامی ہے۔ اس سے صوبائی عصبیت کے تأثر کو قائم و دائم رکھنے کا ذریعہ پیدا ہو گا۔ یہ انگریز کے پرانے سامراجی نظام کی یادگار ہے۔ جناب والا! میں آپ کی توجہ سلطنت اسلامیہ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ جو دنیا کے وسیع اور عریض علاقہ پر مشتمل تھی جس میں ایشیا،  افریقہ اور یورپ کے براعظم شامل تھے۔ اس وقت بھی مجلس شوریٰ ایک تھی۔ کوئی اسمبلی یا کوئی سینیٹ نہیں تھی۔ صرف ایک اسمبلی چل رہی تھی۔ ”

اس وقت بھی کسی نے ان سے یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کی تھی کہ صدیوں قبل وہ کون سی ایسی شوریٰ یا اسمبلی کی بات کر رہے تھے جس میں تمام سلطنت کے منتخب نمائندے موجود ہوں۔ پھر صرف سینیٹ کو ہی کیوں ختم کیا جائے۔ انتخابات کے سلسلہ کو ہی کیوں نہ ختم کر دیا جائے؟ صدیوں قبل تو اس سلطنت میں انتخابات بھی نہیں ہوتے تھے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ابھی سب تیر ختم نہیں ہوئے۔ اس ترکش میں ابھی بہت سے تیر موجود ہیں۔ کل حبیب جالب کی برسی تھی۔ اس کے علاوہ کیا عرض کر سکتے ہیں۔

رہزنوں نے جو رہزنی کی تھی
رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی
سرحدوں کی نہ پاسبانی کی
ہم سے ہی داد لی جوانی کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments