سینیٹ انتخاب : ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے


نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے چئیرمین سینیٹ کے انتخاب میں ہونے والی کوتاہی کی تہہ تک پہنچنے کا قصد کیا ہے تاہم ڈھاک کے تین پات کی طرح، اس معاملہ میں بھی اگست 2019 سے مختلف صورت حال سامنے نہیں آئے گی۔ شاید پارٹی لیڈروں کو آستین کے بعض سانپوں کی خبر بھی ہو لیکن پی ڈی ایم میں جاری سیاسی کشمکش میں کوئی پارٹی خود کو دوسروں کے سامنے کمزور ظاہر کرنا نہیں چاہے گی۔ اس لئے دو برس قبل ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والے 14 سینیٹرز کی طرح اس بار اپوزیشن کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کی کوئی خبر بھی نہیں مل سکے گی۔

معاملہ لیکن صرف اس ایک نکتہ تک محدود نہیں رہا کہ اپوزیشن کے بعض سینیٹرز نے دباؤ یا لالچ میں پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دیا۔ بلکہ سیاسی ضرورت کے لئے ملک کی پارسا اور شفافیت کی دعویدار حکومت کے ہتھکنڈوں نے خود اس کے دعوؤں کی قلعی کھول کر دیانت داری کے نام پر عمران خان کا ساتھ دینے والے ایک بہت بڑے حلقے کو مایوس کیا ہے۔ سینیٹ میں سامنے آنے والے نتائج سے ملک میں سیاسی بحران سنگین ہوگا۔ ضمنی انتخابات کے دوران اسٹبلشمنٹ کی غیر جانبداری کے چرچے ہوئے تھے اور یہ خبر سامنے لائی گئی تھی کہ اپوزیشن لیڈروں کو پیغام پہنچایا گیا ہے کہ اگر فوجی قیادت کا نام لے کر الزام تراشی کا طریقہ ترک کردیا جائے تو اسٹبلشمنٹ بھی ’غیر جانبدار‘ رہے گی۔ ضمنی انتخابات میں ایک کے بعد دوسری نشست پر تحریک انصاف کی ناکامی اور ڈسکہ میں سول انتظامیہ کے ذریعے دھاندلی کی ناکام کوشش سے جو سیاسی منظر تیار ہؤا تھا اس میں اپوزیشن لیڈروں نے اسٹبلشمنٹ کی غیرجانبداری کا اعتراف کیا اور اس کی توپوں کا رخ زیادہ تر عمران خان کی طرف رہا ۔

سینیٹ انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کی غیر متوقع اور اچانک کامیابی حیران کن تھی۔ اسے بھی اس بات کا اشارہ سمجھا گیا کہ اسٹبلشمنٹ نے تحریک انصاف کو اپوزیشن کے ساتھ اپنے برتے پر سیاسی مقابلہ کرنے کا پیغام بھیجا ہے۔ تاہم اس کے فوری بعد جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد حکومت کی طرف سے فوری طور پر اعتماد کا ووٹ لینے کے اعلان سے صورت حال میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ عمران خان نے 6 مارچ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی میں زور دار تقریر میں اپوزیشن کی کرپشن اور ووٹ خریدنے کا قصہ تو تفصیل سے بیان کیا لیکن یہ راز سامنے نہیں آسکا کہ قومی اسمبلی کےمبینہ طور پر 16’بے ایمان ‘ ارکان کے خلاف دیانت دار وزیر اعظم نے کیا کارروائی کی ۔ حالانکہ ان میں سے دو نے تو یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ وہی علی حیدر گیلانی کے ساتھ ویڈیو میں تھے اور اب انہوں نے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ بھی دیا ہے۔

عمران خان پر اعتماد کے ووٹ میں اکثریتی ارکان کا ووٹ ڈالنے سے لے کر اس اجلاس سے اپوزیشن کابائیکاٹ یہی پیغام دیتا تھا کہ اسٹبلشمنٹ کی طرح اپوزیشن بھی فوری طور سے تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ سیاست کی بنیادی سدھ بدھ رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ جانتا ہے کہ اس وقت کسی سیاسی ہتھکنڈے یا جبر سے عمران خان کو ہٹانے کا مقصد انہیں سیاسی شہید بنانے جیسا ہوگا۔ وہ اپنے خلاف اپوزیشن کی مہم جوئی کو الزام دیتے ہوئے اپنی سیاسی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور عوام سے ہمدردی کا ووٹ سمیٹ لیں گے۔ اس لئے اپوزیشن تحریک بنیادی طور پر حکومت کو دباؤ میں رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے تاکہ اس سے بدحواسی میں غلطیاں سرزد ہوں جس کا اپوزیشن فائدہ اٹھاتی رہے۔ گیلانی کی کامیابی کے بعد اعتماد کا ووٹ لینے میں عمران خان کی کامیابی دراصل اسٹبلشمنٹ کی طرف سے بھی اسی پالیسی کا اشارہ تھا۔ اس طرح سیاسی مقصد کی حد تک اپوزیشن اور اسٹبلشمنٹ ’ایک پیج‘ پر دکھائی دیتے تھے لیکن چئیرمین سینیٹ کے انتخاب کے معاملہ پر یا تو مواصلت میں کمی بیشی ہوئی ہے یا اسٹبلشمنٹ عمران خان کو اتنا کمزور نہیں کرنا چاہتی کہ وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجائیں۔ اپوزیشن اور اسٹبلشمنٹ کی تازہ چپقلش اسی ایک نکتہ پر اختلاف کا نتیجہ ہے۔

سینیٹ میں اقلیت کے باوجود حکومتی امیدوار کی کامیابی کو اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ حقیقت کسی شبہ سے بالا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت خواہ اپوزیشن میں ہو یا برسر اقتدار، اس کی صفوں میں ہمیشہ ایسے بعض عناصر موجود رہتے ہیں جن کی وفاداری اس خاص پارٹی کی سیاسی قیادت کی بجائے ان قوتوں کے ساتھ ہوتی ہے جنہیں ملکی سیاست میں حتمی فیصلہ کن حیثیت حاصل رہی ہے۔ سیاسی قیادت ان عناصر کو پہچانتے ہوئے بھی ان سے گلو خلاصی حاصل نہیں کرتی اور ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر بھی ایسے عناصر کو خصوصی توجہ کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ دراصل یہی عناصر مواصلت اور رابطے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان کے توسط سے ہی اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی اقتدار کی راہداریوں تک راستہ ہموار کرنے کا بنیادی کام لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے یہ عناصر کبھی اپنے اصل ’ آقاؤں‘ کے اشاروں کو نظر انداز نہیں کرتے۔

12 مارچ کو چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کے انتخاب میں یہ نکتہ کھل کر سامنے آیا ہے۔ اپوزیشن کے 7 سینیٹرز نے قلابازی کھائی لیکن حیرت انگیز طور پر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیتے ہوئے ان ساتوں نے ایک ہی طریقہ اختیار کیا جبکہ مولانا عبدالغفور حیدری کے معاملہ پر اس ’احتیاط‘ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ڈپٹی چئیرمین کےلئے اپوزیشن کے امیدوار کو 44 ووٹ ملے جبکہ ان کے مد مقابل سرکاری امیدوار کو 54ووٹ حاصل ہوئے۔ کوئی ووٹ ضائع نہیں ہؤا۔ ایسے لوگ ’جاہل یا لاعلم‘نہیں ہو سکتے جنہوں نے تھوڑی دیر پہلے چئیرمین کے لئے ووٹ دیتے ہوئے ایک سی غلطی کی اور صادق سنجرانی کو جتوا نے کا سبب تو بنے لیکن ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان بھی کھڑا کردیا۔ اسی لئے اپوزیشن اب کبھی سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اعلان کرتی ہے اور کبھی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کا قصد ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ کارروائی دراصل اسی سیاسی اٹھک بیٹھک کا نتیجہ ہے جو اس ملک کا مقدر بن چکی ہے۔

جمعہ کو سینیٹ میں ووٹنگ سے ایک روز قبل ہی نواز شریف نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو نشر کی تھی جس میں مریم کو ملنے والی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار پھر فوجی جرنیلوں کا نام لے کر متنبہ کیا گیا تھا اور سیاسی مداخلت سے باز رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ یہ پیغام اس ’ افہام و تفہیم‘ سے برعکس تھا جس کے مطابق اپوزیشن نام نہ لینے اور اسٹبلشمنٹ سیاسی معاملات میں غیر جانبدار رہنے پر راضی ہوئے تھے۔ نواز شریف جب سینیٹ میں ووٹنگ سے بارہ پندرہ گھنٹے پہلے اس ’مفاہمت‘ کو بھلا کر سخت بیان جاری کرتے ہیں تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ سینیٹ انتخاب میں پلڑا کس طرف جھکنے والا تھا۔ تاہم ملک میں سینیٹ انتخاب کے حوالے سے اس قدر گرمجوشی تھی کہ نواز شریف کے اس ویڈیو بیان میں چھپے پیغام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

یہ بات شاید کبھی منظر عام پر نہیں آئے گی کہ ’معاہدہ‘ کی خلاف ورزی کی پہل کس طرف سے ہوئی۔ کیا اسٹبلشمنٹ نے اپوزیشن کی خواہش کے باوجود بہر حال صاد ق سنجرانی کو جتوانے کا قصد کرلیا تھا جس پر اپوزیشن لیڈروں نے بھی مفاہمانہ رویہ اختیار کرنے کا وعدہ توڑ دیا۔ سینیٹ میں الیکشن سے ایک روز پہلے اسٹبلشمنٹ مخالف تند و تیز بیانات چونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے آئے تھے، اس لئے یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ یہ لڑائی دراصل اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تھی یا پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والے سیاسی میچ کا حصہ تھی۔ ایک طرف شاہد خاقان عباسی اپنے ایک سینیٹر سے یہ بیان دلوا رہے تھے کہ ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، عین اسی وقت یوسف رضا گیلانی میڈیا کو یہ بتا رہے تھے کہ اسٹبلشمنٹ غیر جانبدار رہے گی۔ اب پورا ملک جانتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ بہر حال اس انتخاب میں خاموش تماشائی نہیں تھی۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو سینیٹ انتخاب میں صادق سنجرانی کی جیت دراصل اسٹبلشمنٹ کے لئے نئی مشکلات اور اندیشوں کا سبب بنی ہے۔ ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ’مفاہمت‘ کا معاہدہ عارضی ثابت ہؤا ہے۔ تاہم اسٹبلشمنٹ کو اصل نقصان اپنی ساکھ کے حوالے سے پہنچاہے۔ اسٹبلشمنٹ اگرچہ غیر منتخب طاقتوں کے لئے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے لیکن یہ بھی واضح ہے کہ فوجی قیادت اپنے بارے میں عوامی خیر سگالی کی محتاج رہتی ہے۔ اس کی اصل طاقت عوام کو اس بات پر قائل رکھنے میں ہے کہ فوج ہمہ وقت ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کی محافظ ہے۔ تاہم سینیٹ انتخاب کے بعد یہ تاثر قوی ہؤا ہے کہ فوجی قیادت سیاست پر اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے پسندیدہ مہروں کو مضبوط کرتی ہے ۔ اس بار بھی اس نے سرکاری امیدوار کی جیت میں کردار ادا کرکے دراصل ایک غیر مقبول حکومت کو سہارا دیا ہے۔

اس تاثر سے فوج کی شہرت داغدار ہوگی ۔ بد قسمتی سے جو ریاستی اثاثے فوج کی نیک نامی کے لئے بینر لگاتے تھے اور جلسے منعقد کرکے عوام کے فوج نواز جذبات ابھارتے تھے، اب سرکاری ادارے ہی انہیں ایف اے ٹی ایف کی مجبوریوں کی وجہ سے جیلوں میں بند رکھنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف پنجاب کی مقبول ترین سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کا تصادم اب کوئی راز نہیں رہا۔ یہ تاثر نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ کرے گا۔ سینیٹ کی ایک جیت نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف بداعتمادی اور شبہات کی فضا مضبوط کی ہے۔ اس سے پہلے اسٹبلشمنٹ کبھی یوں عوامی کٹہرے میں بے دست و پا کھڑی نہیں ہوئی۔

اسٹبلشمنٹ کی اس بے بسی کی ایک وجہ بلا شبہ عمران خان بھی ہیں جو کسی موقع پر یہ بتانے سے گریز نہیں کرتے کہ وہ کن کی مدد سے حکومت کررہے ہیں۔ عمران خان نعروں سے اپنے ووٹرکو بہلانے کے نئے طریقے تلاش کرلیں گے لیکن ان کی حکومت کے پیدا کردہ مسائل سے پریشان حال عوام اپنے مسائل کا ذمہ دار اب اسٹبلشمنٹ کو سمجھنے لگے ہیں۔ اندازے کی کسی غلطی کی وجہ سے اگر مریم نواز یا کسی دوسرے سیاسی لیڈر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو حالات خطرناک حد تک خراب ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments