قوم پرستی اور وطن فروشی میں کیا فرق ہے؟



جدید دور کی تاریخ قوم پرستی کی تاریخ ہے۔

قوموں کی جدوجہد میں قومیت کی آزمائش ہو چکی ہے اور غیر ملکی حکمرانی اور جدید استعمار کے خلاف یہ واحد تریاق ثابت ہوا ہے۔

قوم پرستی ایک نظریہ اور تحریک ہے جو ایک خاص قوم (جیسے لوگوں کے ایک گروہ جو صدیوں سے ایک علاقے میں مستقل طور پر آباد ہوں) کے مشترکہ مفادات کو فروغ دیتی ہے، خاص طور پر اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے وطن اور قوم کی خودمختاری کو حاصل اور برقرار رکھے۔ قوم پرستی کا موقف ہے کہ ہر قوم بیرونی مداخلت سے آزاد ہو کر اپنے وطن پر خود حکومت کرے، ایک قوم ، ایک جمہوریہ کے لئے یہ فطری اور مثالی بنیاد ہے اور ایک قوم ہی سیاسی طاقت کا مقبول حق ہے۔ اس کا مقصد ثقافت، نسل، جغرافیائی محل وقوع، زبان، سیاست (یا حکومت) ، مذہب، روایات اور مشترکہ تاریخ پر اعتقاد کی مشترکہ سماجی خصوصیات پر مبنی ایک واحد قومی شناخت کی تشکیل اور اسے برقرار رکھنا اور قومی اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینا ہے۔

قوم پرستی کسی قوم کی روایتی ثقافتوں کے تحفظ اور فروغ کی کوشش کرتی ہے اور ثقافتی احیاء قوم پرست تحریکوں سے وابستہ ایک اہم عنصر ہے۔ یہ قومی کامیابیوں پر فخر کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور یہ تصور حب الوطنی کے ساتھ قریب سے جڑا ہوا ہے۔ قوم پرستی اکثر دوسرے نظریات جیسا کہ استعماری فکر اور نو آبادیاتی پالیسی کے خلاف نظریاتی جدوجہد کرتی ہے۔

پوری انسانی تاریخ میں، لوگوں کو اپنے خاندانی گروہوں اور روایات، علاقائی سالمیت اور اپنے آبائی وطن سے فطری لگاؤ رہا ہے۔

قوم پرستی کو علاقائی طور پر منظم سیاسی اجتماعیت کے ساتھ قائم شناخت کے طور پر تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کسی مخصوص برادری میں رکنیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو بیان کرنے کی نفسیاتی ضرورت قوم پرست جذبات کی جڑ ہے۔

نوع انسانی کی ریکارڈ شدہ تاریخ تقریباً دس ہزار سال پرانی ہے جس میں قومی شناخت مرکزی کردار کی حامل رہی ہے۔ قدیم لوگوں اور ان کی ثقافتوں کے عروج و زوال کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ قومیت کا نصب العین بہت گہرا اور قوی ہے اور یہ کوئی فرسودہ چیز نہیں جس کی مستقبل کے لیے کچھ اہمیت نہ ہو۔ قومیت کا جو دائمی اثر انسانی طبیعت پر ہے اسے تسلیم کرنا چاہیے۔

یونانی شہری ریاستوں سے لے کر قدیم سمیرین (Sumerians) تک قوم پرستی کا رجحان we versus they کی بنیاد پر قائم تھا۔

ایک قوم ایک ملک کا فلسفہ درحقیقت معاہدہ ویسٹ فیلیا کے بعد پروان چڑھا ، جب تیس سال کی خونی لڑائی کے بعد یورپی ممالک نے امن کے اس معاہدے کے تحت قوموں کی خودمختاری کے حق کو تسلیم کیا جبکہ جدید قوم پرستی کی ترقی میں 1776 میں امریکی انقلاب اور 1789 میں انقلاب فرانس نے کلیدی کردار ادا کیا۔

قومی حق خودارادیت فرانسیسی انقلاب سے جنم لینے والا ایک مثالیت پسند اعتقاد ہے کہ اگر ہر قوم اپنی سیاسی منزل مقصود کا خود تعین کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ تصور امن کی راہ میں اچھا اقدام ہو گا۔

برطانیہ کی غلامی سے امریکی آزادی کا اعلامیہ،  1776 میں یہ اعلان کیا گیا کہ تمام انسانوں کو یکساں طور پر پیدا کیا گیا ہے، اور یہ کہ انہیں اپنے خالق کی طرف سے کچھ غیر منقسم حقوق دیے گئے ہیں جن میں زندگی، آزادی اور خوشی کا حصول کا حق شامل ہے لیکن 18 ویں صدی کے آخر تک قوم پرستی عالمی سطح پر ایک وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ تصور نہیں بن سکی۔

انقلاب فرانس کے بعد پورے پورپ میں قوم پرست تحریکوں کا احیاء ہوا اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے نے تیسری دنیا میں قومی حق خودارادیت کے حصول کی طرف استعمار مخالف تحریکوں کی ایک بڑی تعداد کو جنم دیا۔

قوم پرستی کی اصل اساس یہ ہے کہ وطن سے الفت ایک فطری رجحان ہے۔ سیاسی مفکروں نے نیشنلزم کو ایک متحرک، ارتقائی رجحان کے طور پر بیان کیا ہے اور قوموں اور قوم پرستی کی نشوونما میں علامتوں اور روایات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ جدیدیت کا نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ قوم پرستی ایک حالیہ معاشرتی واقعہ ہے جسے جدید معاشرے کے معاشرتی و معاشی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔

ایک ”قوم“ کی مختلف تعریفیں ہیں جو مختلف قسم کی قوم پرستی کا باعث بنتی ہیں۔ نسلی قوم پرستی مشترکہ نسل، ورثہ اور ثقافت کے لحاظ سے قوم کی تعریف کرتی ہے جبکہ شہری قوم پرستی مشترکہ شہریت، اقدار اور اداروں کے لحاظ سے قوم کی تعریف کرتی ہے اور اسے آئینی حب الوطنی سے منسلک کیا جاتا ہے۔ تاریخی ترقی کے لحاظ سے قومی شناخت کو اپنانا قومی مشترکہ بقاء کی علامت ہے۔

مشہور تاریخ دان یووال نوح حراری  اپنی کتاب 21 Lessons for the 21st Century میں قوم پرستی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ قوم پرستی آپ کو بتاتی ہے کہ آپ کی قوم انفرادیت رکھتی ہے اور آپ کی قوم کے ساتھ آپ کی خصوصی ذمہ داری ہے۔ قوم پرستی اگر تنگ نظری کی طرف نہیں جاتی ہے تو یہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ فائدہ مند خیال ہے۔ کیونکہ قوم پرستی بنیادی طور پر اجنبیوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنے کے قابل بناتی ہے اور اس طرح کسی علاقے کے اندر صدیوں سے مستقل طور پر آباد لوگوں کی یہ برادری ایک قوم کی تشکیل کرتی ہے جو واقعتاً ایک دوسرے کو نہیں جانتی لیکن وہ ایک دوسرے کو بھائی سمجھ کر خود کو ایک قوم تصور کرتی ہیں۔

وہ لوگ اپنے آپ کو قومی خاندان میں بھائی اور دوست سمجھتے ہیں۔ قوم پرستی ان کے مشترکہ اہداف کے لیے تعاون کرنا ممکن بناتی ہے اور جب آپ دنیا کو دیکھتے ہیں تو آپ عام طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ مضبوط اور خوشحال ممالک قوم پرستی کے بہت مضبوط احساس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر آپ سویڈن، سوئٹزرلینڈ اور جاپان جیسے ممالک کو دیکھیں تو ان کے پاس قومیت کا بہت مضبوط احساس ہے، اس کے برعکس سومالیہ، افغانستان ، کانگو جیسے ممالک جہاں قوم پرستی کا احساس مصبوط نہیں ہے وہاں تشدد اور غربت زیادہ ہے۔

پولیٹیکل سائنس کے مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی قوم کی تشکیل کے لیے ایک علاقے کے اندر صدیوں سے مستقبل آبادی اور ان افراد کا مشترکہ مفاد ایک اہم عنصر ہوتا ہے۔

بین الاقوامی قانون کی روح سے قومی ریاست کی تشکیل کے لیے چار اہم عنصر درکار ہوتے ہیں جن میں ایک مخصوص علاقہ، مستقل آبادی، ان کی ایک نمایندہ حکومت اور خودمختاری شامل ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں ڈی کالونائزیشن کا عمل شروع ہوا ، قومی آزادی کی تحریکوں نے نوآبادیاتی طاقتوں کو چیلنج کرنے اور ان کی نوآبادیات میں قائم استعماری نظام کو ختم کرنے کے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس طرح استعمار کے خاتمے کو پوری دنیا میں نئی ​​خودمختار قومی ریاستوں کے ظہور کی علامت بنایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 1 (2) ممبر ممالک سے لوگوں کے حق خود ارادیت کے حق کا احترام کرنے کا عہد لیتا ہے اور یہ غیر مشروط حق ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی استعماری طاقتیں قوت سے اپنی غیر ملکی رعایا میں قوم پرستانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی یا ان کا صفایا کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لئے نیشنلزم کے خلاف پروپیگنڈے پر بھاری رقوم دل کھول کر خرچ کی جا رہی ہیں اور نیشنلزم کے حامی محب وطن افراد کو اکثر تنگ نظر ، وحشیانہ ، غیر مہذب اور شیطانی اور بیرونی ممالک کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس کی برعکس ہوتی ہے۔

عام طور پر غلامی جسم پر تصرف جمانے سے پہلے ذہن پر قبضہ کرتی ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی رعایا کے بعض لوگ اس گھناؤنے پروپیگنڈے سے مسحور ہوتے ہیں اور یوں استعمار کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور وطن فروشی کرنے میں عار نہیں سمجھتے ہیں اور وطن سے محبت کرنے والے افراد کو غیرملکی ایجنٹ قرار دینے کا ٹھیکہ لیتے ہیں اور اس طرح یہ وظیفہ خوار اپنی روح کا سودا کر کے حقیر اغراض کے لیے اعلیٰ ترین قومی فرائض سے غفلت برتنے لگتے ہیں۔

اس عظیم خدمت کے باعث استعماری طاقت ان کی بڑی تعریف اور توصیف کرتی ہے اور ان پر مہذب، لبرل اور روشن دماغ جیسی اصطلاحات کی بارش کرتی ہے۔

قوم پرستی درحقیقت ایک قوم کی ترقی اور مشترکہ بقاء کی ضامن ہوتی ہے ، قوم پرستی کا مطلب تنگ نظری نہیں، نہ ہی فسطائیت ہے ۔ عام طور پر لوگ اس بات میں فرق نہیں کر سکتے ہیں اور غلطی سے قوم پرستی اور فسطائیت کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔

قوم پرستی کے متعلق عام طور پر دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے ایک مکتب فکر کا ماننا ہے کہ قوم پرستی تنازعات کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے جبکہ دوسرے مکتب فکر کا ماننا ہے کہ یہ قومی وحدت اور یکجہتی کے لیے ایک قوت کا کام کرتی ہے اور جب یہ فرد کو شناخت اور اس سے تعلق کا احساس فراہم کرے تو قوم پرستی ایک مفید قوت ثابت ہو سکتی ہے ، اس لیے ہر محکوم ملک کے لیے قومی آزادی کی لگن سب چیزوں پر مقدم ہونی چاہیے۔ اس سے فرد کو مشترکہ بھلائی کے حصول میں ساتھی شہریوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی اجازت ملتی ہے۔

نیشنلزم ریاست کے اتحاد کے لئے ایک طاقت ہے ، جرمنی کے چانسلر بسمارک نے قومی حب الوطنی کو بنیاد بنا کر دو سو چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم جرمنی کو منظم کر کے ایک ملک بنایا۔

بین الاقومی سطح پر قومی پرستی کی عروج کی مثال یہ ہے کہ 1945 میں اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد سے اقوام متحدہ کی ممبرشپ تین گنا بڑھ گئی ہے اور کچھ ریاستیں اب بھی داخلے کی منتظر ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک ایک سو سے زائد نئی قومی ریاستیں قوم پرستی کی فتح کے ذریعے آزادی حاصل کر چکی ہیں، تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف قوم پرست تحریکیں وجود میں آنا ایک فطری عمل ہے۔ حالیہ تاریخ میں ہم امریکہ سے روس تک قوم پرستی کی تشہیر اور عروج کو دیکھتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے نامور وکیل اور بائیں بازو کے دانشور احسان علی ایڈووکیٹ کے بقول نوآبادیات میں قومی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے قوم پرستوں اور ترقی پسند کارکنوں کے خلاف منصوبہ بندی کے ساتھ جعلی قوم پرستوں کا ایک ٹولا پیدا کیا جاتا ہے جو درحقیقت قوم پرست اور ترقی پسند نہیں بلکہ استعمار کے آلہ کار اور اجرتی مزدور ہوتے ہیں جو ذاتی مفادات کے لیے قومی مفادات کا سودا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments