ہمیں سیاست کی نہیں خدمت کی ضرورت ہے


بیس تیس برس پہلے سیاست بڑی محتاط تھی مگر اب بہت ”دلیر“ ہو گئی ہے۔ اس نے تمام ”جھاکے“ ایک طرف رکھ دیے ہیں اور میدان عمل میں خوب اچھل کود کر رہی ہے۔ اسے یہ فکر نہیں کہ عوام کیا سوچیں گے؟

یہ جو سینیٹ کے انتخابات میں ہو چکا ہے ، اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ ہماری سیاست اور سیاسی جماعتیں عوامی مفاد میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب جب جیتنے والے لوگ ایوان میں پہنچے ہیں تو ان سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ غریب عوام کے لیے کچھ کریں گے؟ نہیں بالکل نہیں۔ یہ پہلے بھی جو تھوڑا بہت کرتے تھے وہ عوام کو نفسیاتی طور سے مطمئن کرنے کے لیے ہی کرتے تھے ، انہیں ان سے کوئی ہمدردی تھی اور نہ ہی ہے۔ یہ لوگ محض اقتدار کے لیے جوڑ تور کرتے ہیں اور پیسے کے حصول کو ممکن بناتے ہیں۔

دیکھ لیجیے کہ اب ان میں سے زیادہ تر پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں یہ الزامات ثابت نہ بھی ہوں تو بھی یہ غلط نہیں کہ انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے دولت کے ڈھیر لگائے مگر عوام کا ایک بڑا حصہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ، اب تو جو مانتے تھے وہ بھی بدعنوانی کو نظر انداز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارا اجتماعی مزاج بگڑ چکا ہے، ذہنوں کو اس حکمران طبقے نے تبدیل کر کے رکھ دیا ہے جو آج لاتعلق بھی ہیں اور غیر سنجیدہ بھی مگر کوئی بھی سیاسی جماعت اس پہلو پر غور و فکر کرنے کو تیار نہیں ، ہر کسی کو اختیارات سے دلچسپی ہے ، جیتنا کیسے ہے اس کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے و حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔

نتیجے کے طور پر زندگی کے بنیادی شعبے سخت متاثر نظر آتے ہیں۔ تعلیم، صحت اور انصاف کی طرف کوئی توجہ نہیں جبکہ کوئی بھی ریاست انہیں پس پشت ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتی مگر یہاں ایسا ہو رہا ہے۔ جس سے پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔ مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے تو شاید یہ طے کر رکھا ہے کہ لوگوں کو کوئی سہولت دینی ہی نہیں ، یہ جئیں یا مریں اسے کوئی پروا نہیں۔

یہ جو ٹی وی سکرین پر آ کر وزیراعظم قرضوں کی واپسی بارے اکثر بتاتے رہتے ہیں کہ انہوں نے اتنے ادا کر دیے اور خسارے کی صورت حال پر قابو پا لیا ہے مگر وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ عوام کی حالت کب سدھرے گی،  انہیں سہولتیں کب ملیں گی۔ آئے روز جو مہنگائی بڑھ رہی ہے ، وہ کیسے رکے گی۔ مافیاز جن کا ذکر تواتر کے ساتھ کیا جاتا ہے ان کو کیسے عوام موافق بنایا جائے گا، قانون کی حکمرانی کا آغاز کب ہو گا اور کب عام آدمی کو بھی ایوان اعلیٰ و بالا میں لے جایا جائے گا۔

ایک کہانی ہے جو شروع دن سے سنائی جا رہی ہے۔ اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کے مشیر وزیر انہیں اندھیرے میں رکھ رہے ہیں۔ وزیراعظم سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ ایسے ”نگینے“ اپنی کابینہ میں شامل کریں۔ بائیس برس کی سیاست کاری کے بعد بھی آپ کو کچھ علم نہیں ہوا کہ یہاں کا سیاسی کلچر کیسا ہے؟

چلئے! ماضی کو بھول جاتے ہیں اب جب وہ دوبارہ نئے وزیراعظم بنے ہیں اور عوام کے لیے فلاحی کام کرنے میں مکمل آزاد ہیں تو اس سے فائدہ اٹھائیے ، اب کوئی جواز باقی نہیں رہا کہ آپ کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے، رہی بات حزب اختلاف کی تو اسے تنقید کرنا ہوتی ہے بلکہ ہمارے ہاں کی حزب اختلاف مخالفت بھی کرتی ہے اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ حکومت ناکام ہو اور وہ اس کی ناکامی کو بنیاد بنا کر اقتدار میں آ سکے لہٰذا اس سے (حزب اختلاف) متاثر نہیں ہونا ، ہماری ناقص سوچ کے مطابق یہ جو این آر او اور بدعنوانی کی گردان ہے ، اسے بھی چھوڑنا ہی ہو گا ، کوئی فائدہ ہوا اس کا؟

ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ یہ کام حکومت کا نہیں اداروں کا ہے جو سزا دیں یا نہ دیں۔ حکومت کو کرنا یہ ہے کہ وہ عوام کی پریشانیوں کو ختم کرنے سے متعلق سوچ بچار کرے ، ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کرے۔ بہتر انتظامی امور سرانجام دینے کے لیے اہل دماغ کے ساتھ مشاورت کرے کیونکہ عوام جس کرب میں مبتلا ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے کہ حکومت کے سخت ترین فیصلوں نے ان کا کچومر نکال دیا ہے مگر یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہو گا کہ اب حزب اختلاف کو چاہیے کہ وہ حکومت کو موقع دے کیونکہ اس کے اقتدار میں آ جانے سے کوئی انقلاب نہیں آنے والا اگر ایسا ہوتا تو وہ اقتدار میں ہوتی۔

بہرکیف اب جب حکومت اور عوامی سویلین ادارے برسوں سے عام آدمی کو ریلیف دینے میں ناکام رہے ہیں اور معاشرے کے اندر بے چینی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے تو کچھ فلاحی محب وطن تنظیمیں انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار متحرک نظر آتی ہیں جس میں شامل نوجوان بغیر کسی لالچ طمع کے اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔

ایسے ہی ایک نوجوان جس کا نام ریاض احمد احسان ہے نے بتایا کہ میں پچھلے ایک برس سے خاموشی سے علاقائی سطح پر لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنے کے لیے اپنے تئیں پوری کوشش کر رہا ہوں ، کسی کو تھانے میں کوئی کام ہے ، کسی سرکاری محکمے سے متعلق کوئی شکایت ہے ، گلی محلے کی سطح پر کوئی پریشانی ہے ، کسی کے گھریلو جھگڑے ہیں ، کسی کی بیٹی کو بیاہنے کے لیے جو اخراجات چاہیے ہوتے ہیں ، اس کے لیے وہ ہر وقت حاضر ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک فلاحی و رفاہی تنظیم کی بھی تشکیل کر چکے ہیں جو تعلیم اور صحت کے حوالے سے لے کر سماجی مسائل تک کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہی ہے، اس سے لوگوں میں جو اضطراب کی کیفیت موجود ہے ، اس میں کمی آ رہی ہے کیونکہ اب لوگوں کو یقین ہو رہا ہے کہ اگر حکومت ان کی معمولی مشکلات پر دھیان نہیں بھی دیتی تو مجھ ایسے لوگ اور ان کی فلاحی تنظیمیں کسی کو مایوس نہیں کریں گے۔

یہ بہت اچھی بات ہے ۔ اب لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت آگے آنا ہو گا کیونکہ حکومت انہیں بے وقوف تو بنا سکتی ہیں ان کو سہولتیں نہیں دے سکتی لہٰذا ایسی تنظیمیں جو لوگوں کے دکھ درد میں براہ راست شریک ہوتی ہیں ، ان سے رابطہ کر کے اپنے نجی مسائل کے حل تلاش کریں۔ آگے چل کر یہی تنظیمیں جب با اختیار ہو جاتی ہیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ اس نظام کو تبدیل کر دیں گی، جو تہتر برس سے ملک کے معاشی و سماجی ڈھانچے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔

حرف آخر یہ کہ اہل اقتدار و اختیار کے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ سیاست کو عوام دوست بنانے کی کوشش کریں وگرنہ وہ دیکھیں گے کہ ایک نئی عوامی سیاسی جماعت ان کے سامنے آن کھڑی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments