اردو ناول: 2000 کے بعد کا منظر نامہ، مختصر نوٹس


وقت کے ساتھ ناول اور فکشن کی دنیا بہت حدتک تبدیل ہو چکی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارا نقاد آج بھی فکشن اور ناول کو اپنی اپنی تعریف و تشریح کے محدود پیمانے میں قید کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا واقعی کہانی کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ ایک انجام یا کلائمکس ہوتا ہے۔ کہانی ایک صدی سے زیادہ کا سفر طے کر چکی ہے۔ اور ہماری زندگی تہذیب کی اس اندھیری سرنگ میں گم ہے جہاں نہ کوئی آغاز ہے نہ انجام۔ اس تیز رفتار بھاگتی ہوئی زندگی کا کوئی انجام کیونکر لکھا جا سکتا ہے۔

ناول کے ساتھ بھی ٹھیک یہی معاملہ ہے۔ ایک نئی دنیا ہمارے سامنے ہے۔ اس نئی دنیا میں حقیقت فنتاسی کا فرق اٹھ چکا ہے۔ اچھے ناول کے لیے نئی نئی زمینیں موجود ہیں۔ علامت سے فنتاسی تک کی ایک بڑی دنیاسامنے ہے۔ ایک جرمن ناول نگار جرمنی میں فروخت ہونے والے چاکلیٹ کی الگ الگ قسموں کو لے کر ایک ناول کی تخلیق کرتا ہے۔ ہر چاکلیٹ ایک بچہ، بچہ کے ماں باپ اور ماں باپ کی دنیا سے وابستہ کہانیوں کو سامنے رکھتا ہے اور اسی کے ساتھ ایک حیران کرنے والی دنیا سامنے آتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے تجربے صرف باہر ہو رہے ہیں۔ آج اردو میں بھی اس طرح کے تجربے مسلسل ہو رہے ہیں۔ مثال کے لیے مرزا اطہر بیگ کے ناول ’غلام باغ‘ یا ’صفر سے ایک تک‘ کا مطالعہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ ناول کی یہ نئی زمین پریم چند اور قرۃ العین حیدر کی زمینی حقیقت سے بہت حد تک مختلف ہے۔

مرزا اطہر بیگ کے ناول صفر سے ایک تک کا موازنہ اندنوں جوائز کے ناول یولیسنر کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے پہلے ناول غلام باغ کو اردو ناول کی تاریخ کا تیسرا بڑا واقعہ قرار دیا گیا۔ صفر سے ایک تک دراصل سائبر اسپیس کے منشی کی سرگزشت ہے اور اس سرگزشت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی دنیا کو ناول کا موضوع بنایا گیا ہے۔ دراصل ان دونوں ناولوں میں مرزا اطہر بیگ نے ایک تخیلاتی دنیا سے کام لیا ہے اور ناول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زبان کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ مرزا اطہر بیگ اپنے ناولوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، یہ جاننا بھی دلچسپ ہے۔

”دیوانگی،“ غلام باغ ”کے بنیادی موضوعات میں سے ایک ہے۔ فلسفے کے طالب علم کی حیثیت سے بھی یہ موضوع مجھے بہت Fascinate کرتا ہے۔ ہمیشہ سے یہ احساس رہا ہے کہ فرزانگی اور دیوانگی میں بال برابر کا فرق ہے۔ دیوانگی کا موضوع ناول کے پلاٹ سے بھی متعلق تھا۔ اس ناول میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں زبان کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ دیوانگی بڑی حد تک ایک لسانی مسئلہ ہے۔ جب ہمارے لسانی نظام میں کسی سطح پر بگاڑ پیدا ہوتا ہے تب ہی دیوانگی کا اظہار ہوتا ہے۔

بہرحال، یہ ایک علمی مسئلہ ہے، تو ناول کے کردار کئی بار اس سطح پر آتے ہیں، جب دوران گفتگو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کلام ان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ ہذیان کی سطح آ جاتی ہے، مگر بات دیوانگی برائے دیوانگی پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہ وجود کی، انسان کے انسان سے تعلق کی ایک اور سطح تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ کبیر اور زہرہ کا تعلق، عورت مرد کے تعلق کی انتہائی شکل تک پہنچنے کی کوشش ہے، جہاں من و تو کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔“

(مرزا اطہر بیگ سے گفتگو، اجرا، شمارہ 31)

مرزا اطہر بیگ کے ساتھ ہی مستنصر حسین تارڑ بھی ناول کی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔ ’خس و خاشاک زمانے‘ تارڑ کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کے بغیر اردو ناولوں پر گفتگو ممکن ہی نہیں ہے۔ تجربہ تو ہونا ہی چاہیے، مگر زیادہ تر لوگ تجربہ تب کرتے ہیں جب ان کے پاس وہ فن یا ہنر نہیں ہوتا، جو مکالمہ نگاری پر قدرت رکھتا ہو، جہاں کردار نگاری کا جال بچھایا جاتا ہو، جہاں ایک کہانی صدیوں پر محیط فکر و فلسفے کا نیا باب روشن کرتی ہو۔

ہم تجربہ کر رہے ہیں۔ یا ایسی کئی کہانیاں اس وقت اچھی لگتی ہیں، جب ہم کسی مخصوص لمحے ان کو پڑھنے بیٹھے ہوں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ان کی چمک ماند پڑنے لگتی ہے۔ پھر وہ تجربہ، جو ایک وقت میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ وہ ناول یا کہانی وقت کے ساتھ افسانہ گمشدہ بن چکی ہوتی ہے۔ صدیق عالم ہوں، خالد جاوید، یا ایسے کئی نام۔ یہاں تجربوں کی شاندار روایت رہی ہے۔ مگر ڈر ہے کہ آنے والی صدی میں کہانیوں کی تفہیم کے لیے فاروقی نہ ہوں گے تو قاری تک ان کہانیوں کو کون پہنچائے گا۔ مغرب کے ایسے ہزاروں لاکھوں اثاثے تجربے کے نام پر وقت کی بھیڑ میں کھو گئے۔ ان کا بھی وہی حشر نہ ہو۔

مرأۃ العروس، بنات النعش (ڈپٹی نذیراحمد) اور اصلاح النساء (رشیدۃ النسا) جیسے ناولوں میں مذہبی سروکار اور اخلاقی رویوں کی جانب جو اشارے ملتے تھے، کیا وہی سماج اورمعاشرہ آزادی کے 27 برس بعد آج بھی موجود ہے؟ اس میں دو رائے نہیں کہ ایسے اصلاحی ناول مذہبی وژن کے سہارے مسلم سماج کی غلط اور کمزور تربیت کا دم بھر رہے تھے۔ ایسے ناول اس عہد میں بھی ثقافتی، سماجی اور اخلاقی سطح پر لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان فرق پیدا کرتے ہوئے ایک پوری نسل کو کمزور اور دبو بنانے کی سعی کر رہے تھے۔

(جہاں تک مجھے یاد ہے، اس زمانے میں بھی رقیہ سخاوت حسین جیسی عورتیں سامنے آ چکی تھیں۔ ان کی ایک کہانی مجھے یاد ہے جہاں عورتیں مردوں کی طرح باہر کی دنیا آباد کرتی تھیں اور مردوں نے خود کو گھر کے کام کاج کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس عہد کے احتجاج کا یہ پہلو بھی دیکھیے) ۔ سرشار کے تاریخی ناول، مرزا محمد ہادی رسوا کا امراؤ جان، راشد الخیری کے ناولوں سے آگے بڑھتے ہیں تو حقیقت نگاری بے بس نظر آتی ہے۔ وہ ترقی پسندی سے کہیں بھی آنکھیں چار کرنے میں کمزور اور لاچار نظر آتی ہے۔

عصمت چغتائی اورقرۃ العین حیدر کے عہد تک یہ تہذیبی رویے بدلے تھے۔ قرۃ العین کے ناولوں میں ایلٹ کلاس ، طبقۂ اشرافیہ کی عورتیں بھی کردار تھیں جو موسیقی کی تعلیم لے رہی تھیں، جو پینٹنگز کرتی تھیں، جو ہوٹلوں اور کلبوں میں جاتی تھیں۔ لیکن ان سب کے باوجود مسلم معاشرہ وہی تھا۔ تبدیلیاں دو ایک فیصد لوگوں کے گھروں کو منور کر رہی تھیں مگر پسماندگی فکر میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا تھا۔

ناول کی کائنات، کہانیوں کی کائنات سے ان معاملوں میں بھی مختلف ہے کہ یہاں رواں دواں زندگی کو سلیقہ کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے۔ کہانی محض اس زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہوتی ہے۔ بڑا ناول نگار جب ایک ساتھ مختلف کرداروں اور ان کی زندگی کے ساتھ چلتا ہے تو اپنے وژن کو موضوع کی وحدت سے ایک سانچے میں ڈھالتے ہوئے اپنی تخلیقی ذہانت کا ثبوت بھی فراہم کرتا ہے۔ ایسا کئی بار ہوتا ہے جب ذہن میں محض ایک چھوٹی سی کہانی کی بنیاد پڑتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ کہانی ایک بڑے ناول کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

اس گھٹن آلودہ زندگی سے کہانیاں بننے کی جرأت مندی اپنے تمام اوصاف اور لوازم کے ساتھ نہ صرف غضنفر کے یہاں موجود ہیں بلکہ غضب یہ کہ ناول کی تخلیق سے پہلے یہ فنکار ان لوازم کا استعمال اپنی چھوٹی سی کہانی کے لیے کرتا ہے۔ اور اس طرح غور کریں تو غضنفر کا ناول ’مانجھی‘ پہلے ایک چھوٹی سی کہانی کے فارم میں ہمارے سامنے آتا ہے اور غضنفر اور خوبصورت بیانیہ اور اسلوب اسے کہانی سے ایک بڑے ناول میں تبدیل کر دیتا ہے۔

کہانی کا ناول بن جانا منزل عشق کی کمزوری نہیں، بلکہ عروج ہے کہ ہمارا لکھاری محض ایک چھوٹے سے واقعہ پر قناعت نہیں کرتا بلکہ تخلیقی کیفیت، مشاہدے کی گہرائی کے ساتھ تخیل کی نزاکتوں کا احترام کرتے ہوئے اسے وقت کا آئینہ دکھاتا ہے اور سچ پوچھیے تو مانجھی ہمارے عہد کا ایک ایسا آئینہ ثابت ہوا ہے جہاں ساجھی وراثت یا مشترکہ کلچر کا وہ عکس دیکھا یا محسوس کیا جاسکتا ہے، جسے اس سے قبل لکھنے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی۔

ابھی حال میں انیس اشفاق کے تین ناول منظر عام پر آئے۔ پہلا ناول دکھیارے تھا۔ انیس اشفاق ناول لکھنے کے فن سے واقف ہیں جبکہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے بیشتر ناول نگاروں کو ناول نگاری کا فن ہی نہیں معلوم۔ زبان و مکالمہ پر قدرت ہے۔ کردار نگاری پر عبور حاصل ہے۔ دکھیارے انیس اشفاق کا پہلا ناول ہے۔ یہ ناول گزشتہ لکھنؤ سے عبارت ہے اور یہ لکھنؤ ماضی اور حال دونوں کو سمیٹے ہوئے اس ناول میں موجود ہے۔ ناول کے آخری جملے میں ایک خاموش محبت کی کسک سنائی دیتی ہے۔ بڑے بھائی کے ناقابل فراموش کردار کے لیے بھی اس ناول کو یاد رکھا جائے گا۔ اس کے بعد ایس اشفاق کے جو ناول آئے، وہاں بھی لکھنؤ مختلف صورتوں میں آباد نظر آتا ہے۔

قرۃ العین حیدر سے صدیق عالم، علیم عاطف، رفاقت حیات اور خالد جاوید تک آتے آتے اردو ناول کا کینوس، اسلوب اور لہجہ بہت حد تک بدل چکا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ وقت کے ساتھ اسے بدلنا بھی چاہیے تھا۔ پریم چند معاشرہ کی کمزوریوں پر تحریر سے شمشیر کا کام لے رہے تھے تو قرۃ العین حیدر محض اپنے عہد کا نوحہ لکھنے میں مصروف۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ آزاد ہندستان میں تقسیم سے پیدا شدہ اثرات میں اظہار کی صورتوں کو تہذیبی تصادم کی آنکھ سے دیکھتی رہیں اور رنجیدہ ہوتی رہیں کہ جدید تقاضوں نے وہ تہذیب گم کر دی جس کے سایہ میں ان کی تربیت ہوئی تھی۔ اور اس طرح غور کریں تو وہ ایک ہی کہانی یا اپنی ہی کہانی نئے نئے عنوان سے قلم بند کرتی رہیں۔

دیکھا جائے تو 2000 کے بعد کا فن کار محض اس تہذیبی ناسٹیلجیا کا شکار نہیں ہے۔ وہ آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ اپنے سماج، اپنے معاشرے، اپنے مذہب سے باہر نکل کر نئے بیان اور اظہار کا متلاشی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments