حکمتیار اور سراج الحق کا امریکہ سے افغان مارشل پلان کا مطالبہ


تازہ ترین خبر کے مطابق امیر جماعت اسلامی پاکستان اور حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ ”افغانستان میں افغان عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام وقت کی ضرورت ہے، امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے، عالمی طاقتیں افغانستان کی تعمیرنو کے لئے مارشل پلان کی طرز پر امدادی پیکج کا اعلان کریں“

کنویں سے نکل کر کھائی میں گرنے ”کا محاورہ تو ہم اپنے بچپن سے سنتے آئے تھے لیکن اس کے حقیقی مفہوم سے ناواقفیت کی وجہ سے ہمیشہ اس سوچ میں گم رہے کہ کنواں کم گہرا ہوتا ہے یا کھائی نیز یہ کہ اگر کوئی کنویں سے نکلنے میں کامیاب بھی ہو جائے اور کھائی میں جا گرے تو کیا وہ واقعی زیادہ نقصان میں رہتا ہے یا کھلی فضاء اور ہوا اس کی صحت و توانائی کے لئے خوش خبری کا سبب بنتی ہے۔

ذہن میں یہ سوال بھی بڑی شدت کے ساتھ اٹھتا رہتا تھا کہ آخر ایک فرد کنویں میں گرنے کی بجائے براہ راست کھائی میں کیوں نہ گر گیا۔ جب کنواں اور کھائی ایک دوسرے سے اس طرح متصل تھے کہ کنویں سے نکل جانے والا لازماً کھائی میں جا گرے گا تو کوئی فرد کھائی کی بجائے کنویں میں ہی کیوں جا گرا اور جب وہ کنویں میں گرا ہی تھا تو پھر اس نے کنویں سے باہر آنے کی کوشش اس انداز میں کیوں کی کہ جونہی وہ کنویں سے باہر آئے پلٹ کر کھائی میں جا گرے۔ بہت غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ بار بار ڈس لیے جانے کا پرانا پاپی تھا اور اس لحاظ سے وہ یقیناً صاحب ایمان بھی نہیں ہو گا اس لئے کہ ایمان والوں کے متعلق فرمان یہی ہے کہ اسے ایک سوراخ سے دو بار کسی صورت نہیں ڈسا جا سکتا۔

ایک طویل عرصے تک میں یہی خیال کرتا رہا کہ صرف برصغیر کے مسلمان ہی ایسے نامکمل ایمان والے ہیں جو سو بار بھی ڈس لئے جائیں تو دوبارہ ایک سے شروع ہو جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ کہلاتے تو وہ مسلمان ہی ہیں لیکن جن کو ”مومن“ کہا جاتا ہے اصل میں وہ آج تک اس مقام پر فائز ہونے کے لئے تیار نہیں۔

تاریخ میں بار بار دھوکے پر دھوکا کھانے کے بعد بھی وہ دوبارہ سے کسی تازہ صدمے کے لئے تیار و آمادہ ہو جاتے ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی ہو، خلافت کی تحریک ہو یا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کے بلند بانگ نعروں کی گونج، ہر مرتبہ لبیک لبیک کہہ کر لپکتے، بڑھتے اور چڑھتے دیکھے گئے اور ہر مرتبہ ان کی آنکھوں میں خواب سجانے والے انگریزوں کے جوتے ہی چاٹتے نظر آئے اور برصغیر کے مسلمانوں کے ہاتھ سوائے قربانیوں کے اور کچھ نہیں آ سکا۔

پاکستان بن جانے کے باوجود بھی ہر ظلم و جبر کے خلاف ”نعرہ تکبیر“ پر لپکنے اور جھپٹنے کے سلسلے میں صرف قربانیاں دینے کے علاوہ ان کے پلے کبھی کچھ نہ آ سکا۔ ماضی قریب تک تو یہ سارے ”نعرہ تکبیر“ ہی کے پیچھے اپنی عزتیں تار تار کراتے رہے لیکن آج کل جمہورت کے نام پر اپنا سب کچھ لٹانے کے چکر میں قومی، صوبائی اور سینیٹ کے ممبروں کے پیٹوں کو موٹے سے موٹا کرنے کے صلے میں دو وقت کی روٹی کو ترسنے کے باوجود ”مومن“ بننے اور ایک سوراخ سے دوسری بار نہ ڈسے جانے کے لئے تیار و آمادہ نظر نہیں آتے۔

میرا وہم آج سے پہلے کنویں سے نکل کر کھائی میں بار بار گرنے والوں کے متعلق صرف برصغیر کے مسلمانوں تک ہی محدود تھا لیکن مذکورہ خبر پڑھنے کے بعد میری محدود کج فہمی کی حدیں کچھ اور وسیع ہوئیں اور میں نے جانا کہ شاید مسلمان جہاں جہاں بھی پائے جاتے ہیں وہ ”مومن“ بننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں اور ان کو ایک ہی سوراخ سے جتنی مرتبہ بھی چاہے ڈسا جا سکتا ہے۔

پوری دنیا کے مسلمان اس بات سے باخبر ہیں کہ فرنگی اور فرنگیانہ سوچوں کے بڑے بڑے ناگ ان کی جانب اپنے پھن پھیلا پھیلا کر بار بار ڈسے جا رہے ہیں لیکن ہر بار ڈسے جانے کے بعد بھی خوش گمانیوں کا یہ عالم ہے کہ فرنگی ناگ دوسری مرتبہ انہیں ڈسنے کی بجائے ”منکے“ اگلیں گے تاکہ جسموں سے زہر کشید کیا جا سکے۔

کہا جا رہا ہے کہ امریکا افغانستان کو حقیقی طالبان کے حوالے کر دے اور عالمی طاقتیں ان کی از سرنو تعمیر و ترقی کے لئے ایک اعلیٰ قسم کا ایسا پیکج دیں کہ ان کے سارے زخم مندمل ہو جائیں اور وہ اپنے قدموں پر مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہونے اور آگے بڑھنے کے قابل ہو جائیں۔

قربان جائیں اس حسن ظن پر، اب اللہ ہی جانے یہ حسن ظن ہے یا حسن زن۔ کیا اس وقت افغانستان میں صرف امریکا بہادر ہی قابض ہے۔ کیا دنیا کی وہی ساری طاقتور اقوام جن کی جانب بری طرح مار کھانے والے خوش گمانی کے ساتھ یہ توقع باندھے ہوئے ہیں کہ امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد ان کی مدد کر کے انہیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی منصوبہ سازی کریں گی، 27 ممالک کی ”نیٹو“ افواج نہیں جو افغانستان پر مسلط ہیں۔ پھر یہ کہ کیا مدد کرنے والے اپنے کسی بھی قسم کے مذموم مقاصد رکھے بغیر ان کی مدد کو تیار ہو سکتے۔

سیدھی سی بات اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ”اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے“ ، یہ اگر کر سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ پاکستان کو آزاد ہوئے بھی 73 برس گزر چکے ہیں لیکن غلامی کی زنجیروں کی ایک کڑی بھی مسلمانان پاکستان توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

مذکورہ دونوں رہنماؤں کو اس فریب سے باہر آنا ہو گا کہ امریکا افغانستان کو افغانیوں کے حوالے از خود کر کے چلا جائے گا اور پھر دنیا کی طاقتور حکومتیں ان کے لئے نگاہیں فرش راہ بھی کریں گی۔ دونوں رہنماؤں کی اس سادگی و سادہ دلی پر راقم خود اپنے بقول اس سے زیادہ کیا عرض کر سکتا ہے کہ

اب بھی پانی کی طلب کی تو سرابوں سے حبیب
اب تو یہ ریت کی دیوار گرا دی جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments