ہمارا خاندانی نظام اور نجی زندگی میں مداخلت کا سوال



ہمارے معاشرتی رویوں میں ایک دوسرے کی عزت نفس کے خیال رکھنے کا فقدان ہے۔ ہم مجموعی طور پر ایسی سماجی روایات کے پر کھڑے ہیں جن میں دوسرے کے معاملات میں غیر ضروری دخل اندازی کو نارمل اور اپنی حدود کو متعین کرنے کو ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔

ہم ہر شخص پر تنقید کرتے ہیں جو کہ اپنے ذاتی معاملات میں بیرونی مداخلت کو ناپسند کرتا ہے اور اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے لوگوں کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کے ذاتی معاملات میں غیر ضروری ٹانگ نہ اڑائیں۔

برصغیر پاک وہند میں علاقائی رسم و رواج اور مذہبی نقطۂ نگاہ کو اس طرح سے آپس میں مدغم کر دیا گیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ پیچیدہ طریقے سے گنجلک ہو چکے ہیں۔ اسلام میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ ایک دوسرے کے معاملات کی ٹوہ میں نہ رہا جائے۔ جب کہ ہمارے معاشرے میں ہر شخص کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ آپ کی ذات کے متعلق کسی بھی قسم کا سوال کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ نہ صرف سوال کرنا بلکہ اگر بہ امرمجبوری آپ اس کی بات کا جواب دے دیں گے تو اس وقت وہ تبصرہ اور تجزیہ کرنا بھی اپنا بنیادی فریضہ سمجھتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر ہمیں جناب ”میم“ کی ذات سے الجھن ہے اور ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اپنی گفتگو کو مختصر رکھیں۔ مگر جناب میم اتنی ہی شدت سے آپ سے عمومی سوالات کو لے کر گفتگو کریں گے۔ بظاہر سوال کتنا ہی معمولی نوعیت کا ہو جیسے کہ آج کھانے میں کیا کھایا کہ آپ ایک مختصر جواب دیں گے اور پھر آپ نے ایکس وائی کوئی بھی جواب دیا ہو ، اس کی بنیاد پر وہ آپ کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے ۔ ایسے افراد کی تسکین صرف اس امر سے ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اپنی زندگی پر کسی حد تک کنٹرول حاصل کر سکیں۔ یہ سب امور وہ بظاہر محبت کے نام پر انجام دے رہے ہوں گے اور اس پر مستزاد یہ کہ اگر آپ ان کی محبت کو قبول کرنے سے انکاری ہیں تو آپ کی ذات کے متعلق تبصرہ کریں گے ، بلکہ آپ کے مثبت پہلو کو بھی اپنی ناکامی کی وجہ سے قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اوپر بیان کی گئی صورتحال ایسے حالات مزید خراب ہو جاتی ہے جب ایسے افراد آپ کے نہایت قریبی خاندان پر اپنے اس جذباتی ہتھیار کا استعمال کر کے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے خاندان کی تشریح کو ہی نہایت پیچیدہ بنا دیا ہے ۔ اگر خاندان میں آپ کے والدین اور بہن بھائی آتے ہیں تو شادی کے بعد آپ کا خاندان کیا ہے؟ جس طرح ہم اپنے معاشرے میں ایک لڑکی کو سمجھاتے ہیں کہ کیسے اس نے اپنی زندگی میں رشتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور کیسے مزاج کنٹرول میں رکھنا ہے ، کیا اس بارے میں مرد حضرات کی تربیت بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے؟

یہ بات تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ کیسے وہ اپنی بیوی بچوں اور اپنے بہن بھائیوں میں جائز حدود کا تعین کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یا تو ان کے بیوی بچے جذباتی استحصال کا شکار ہوتے ہیں یا پھر ان کے والدین پریشان ہوتے ہیں کیونکہ ہمیشہ کمزور طبقے کو استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ایسے میں والدین اور بہن بھائی بیشتر مواقع پر اپنے بچے کو ایموشنل بلیک میلنگ کا شکار کرتے ہیں۔

اور بیوی کمزور فریق ہونے کی وجہ سے ایسے میں ان رویوں کا زیادہ شکار ہوتی ہے۔ اگر ایسے میں وہ براہ راست بیوی کی زندگی کو کنٹرول نہیں کر سکتے تو بالواسطہ طریقوں سے اپنے بیٹے کے ذہن کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھلے آپ ایک الگ گھر میں رہتے ہو پھر بھی ان کی دخل اندازی غیر مرئی طریقے سے شامل رہتی ہے۔

رشتوں اور محبت کے نام پر اس طرح کے اختیار کی جنگ جاری رہتی ہے۔ ہمیں اب اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ رشتوں اور تعلقات میں اخلاقی حد بندی اور آپس میں میل جول میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہم ایک دوسرے کی حدود کا احترام کریں، غیر ضروری دخل اندازی سے پرہیز کریں۔ شاید اس طرح ہم بہتر معاشرے کی تشکیل اور ذہنی طور پر مضبوط معاشرے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments