سینیٹ الیکشن: سچ، سیاسی اور اخلاقی اقدار کی ہار



سینیٹ الیکشن کی وجہ سے کچھ ہفتوں سے اسلام آباد کا سیاسی درجہ حرارت کافی عروج پر ہے۔ آئندہ دنوں میں یہ درجہ حرارت بڑھتا ہے یا کم ہوتا ہے۔ یہ حزب اختلاف اور حکومتی حکمت عملی پر منحصر ہے۔

مملکت خداداد میں اقتدار کے حصول کے لئے سیاسی جوڑ توڑ، رسہ کشی اور سازشیں نئی بات نہیں ہے۔ اس سب کا آغاز پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ آغاز ہی سے انتخابات میں لڑائی جھگڑے دنگا فساد، خوف و ہراس کا ماحول اور دھاندلی کا الزام لگانا ایک روایت رہی ہے۔

لیکن یہ ساری غیر اخلاقی حرکات کسی حد تک ’اخلاق‘ کے دائرہ میں رہ کر کی جاتی تھیں۔ اختلافات سیاسی بنیاد پر کیے جاتے تھے۔ مخالفین کی ذاتی اور نجی زندگی پر آج کی طرح جملے بازی نہیں کی جاتی تھی۔ ہمارا سیاسی ماضی اتنا تابناک تو نہیں ہے۔ لیکن آج کی طرح کا بدبودار اور تعفن زدہ بھی نہیں ہے۔ ماضی میں سیاست دانوں کی زبانیں اتنی زہر آلود اور نفرت بھری نہیں ہوتی تھی جتنی آج کے جمہوری دور میں ہیں۔ تب سیاست دان نظریے، قومی مسائل اور پالیسی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ آج کے سیاسی منظر نامے میں مخالفین کو برے القاب سے پکارا جاتا ہے اور ان کی ذاتی زندگی کے واقعات افشا کیے جاتے ہے۔ دلیل کی بجائے گالی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

سینیٹ الیکشن پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں لیکن اپنے پیچھے ان گنت سوال چھوڑ گئے ہیں، جن کے جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔

آخر عوام کب تک مفاد پرست سیاست دانوں کے ہاتھوں پستے رہیں گے۔ ایوان بالا کے الیکشن میں اقلیت نے اکثریت کو مات دے کر دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ بڑے بڑے نامی گرامی تجزیہ نگار اس کارنامے پر اپنے تجزے پیش کر ہی رہے تھے کہ ایک بار پھر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اقلیت بازی لے گئی۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی کی کہاوت یہاں پر صادق آ گئی اور انسانی عقل اس معجزے پر دنگ رہ گئی ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے پہلے ہی اکثریت نوشتۂ دیوار پڑھ چکی تھی۔ اکثریت یہ بات سمجھ چکی تھی کہ جس طرح ہم نے سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت کے ممبرز کو خرید کر ایک بڑا سیاسی بحران پیدا کیا تھا اور وزیراعظم، ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اسی طرح اب حکومت نے ہمارے ارکان کی بولی لگا کر اپنے حق میں ووٹ دینے کے لئے انہیں تیار کر لیا ہے۔ اپوزیشن کو اپنی شکست دیوار پر لکھی نظر آ رہی تھی۔ سینیٹ الیکشن تو خرید و فروخت کی وجہ سے مشکوک ہو چکے تھے۔ پولنگ بوتھ میں کیمرے کی موجودگی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

لیکن یہاں پر سوال تو بنتا ہے کہ یہ کیمرے کس نے نصب کیے اور مصدق ملک کو کیا پہلے سے ہی کیمرے کی موجودگی کا علم تھا جو ایوان میں آتے ہی انہوں نے اس کی نشان دہی کر دی تھی۔ لیکن سوال تو پھر یہ بھی بنتا ہے مارکیٹ میں جدید کیمروں کی موجودگی میں پرانے کیمرے کیوں استمال کیے گے۔ اس کی وجہ یہ بھی تو ہو سکتی ہے کیمرے نصب کرنے والے کا مقصد صرف الیکشن کو متنازع بنانا تھا۔

کچھ لوگوں کی انگلیاں خفیہ اداروں کی طرف بھی اٹھیں کہ یہ کام انہوں نے کیا ہے تاکہ ریکارڈ رکھا جا سکے کہ کسی امیدوار نے یقین دہانی کے بعد دھوکہ دہی کی کوشش تو نہیں کی لیکن یہاں پر سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا ہمارے خفیہ ادارے اتنے پرانے کیمرے استعمال کرتے ہیں؟ ان کے پاس جاسوسی کے لئے جدید کیمرے میسر کیوں نہیں ہیں؟

سوال تو پھر ایجنسیوں کی کارکردگی پر بھی اٹھتا ہے، جن کو ڈھنگ سے کیمرے نصب نہیں کرنے آتے۔ یوسف رضا گیلانی کی جیت کے بعد رعونت بھرے لہجے میں الگ الگ پریس کانفرنس کرنے والے پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے سنجرانی کی جیت کے بعد لہجے دھیمے پڑ گے۔ جیت جس کی بھی ہوئی ہو یہ جیت سچ، سیاسی اور اخلاقی اقدار کی ہار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments