عورت مارچ، صلاحیتیں اور طنزیہ ردعمل


طنز کے نشتروں سے وار کرنے کا مقصد سماجی قدغنیں لگانا اور معاشرے کی ترقی اور روشن خیالی کے آگے رکاوٹیں ڈالنا ہوتا ہے۔ جن کو سماج کی ترقی اور کھلے پن سے چڑ ہے ، وہ ان جملوں کی بناوٹ ایسی رکھتے ہیں کہ لوگوں کی عزت اور احترام پر حرف آئے اور آئندہ کے لے دوسروں (یعنی خاموش حامیوں) کی ذہن سازی بھی ہو جائے کہ ان کی لگائی ہوئی سماجی قدغنوں کو پھلانگنے کے بارے میں کوئی سوچے بھی نہیں۔

یہ سلسلہ زمانوں سے چلا آ رہا ہے، طاقت ور زبان اور روایتوں کی ساخت ایسے رکھتا ہے تاکہ وہ ان کو بہ وقت ضرورت ہتھیار کے طور پر استعمال کرے۔ لیکن اس کے نشانے پر پہلی صف پر کھڑے لوگوں سے زیادہ وہ خاموش لوگ ہوتے ہیں جو اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کوئی جیت جائے ، تب وہ اس کی حمایت کے لیے باہر نکلیں گے۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر احتجاج اور اس دن سے جڑی مختلف علامتوں سے لوگوں کو کیا مسۤئلہ ہے کہ طنزیہ جملوں کے تیر چلانے شروع ہو گئے ہیں، جیسے کہا گیا ”عورت مارچ یا عورت ناچ“ ۔ سوال یہ ہے کہ مارچ کے شرکاء نے پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے اور انہوں نے عورت کے حق کی تشریح بھی کی تھی، وہ کسی کو نظر کیوں نہیں آئے۔ عورتوں نے اکٹھے ہونے کا اظہار تالیاں بجا کر گول دائروں میں گھوم کر کیا تو یہ ہمیں برا لگ گیا۔

یہ سب غیر فطری سا لگتا ہے کہ میں کسی کو خوش دیکھوں تو اس پر غصہ کرنے لگوں، منہ بناؤں، طنزیہ جملوں کے تیر برسانے لگوں۔

خوشی کی کیا تعریف کریں یا اس کی کس طرح فزیالوجی بیان کریں کہ یہ ہے کیا؟ خوشی تو خوشی ہے، یہ زندگی کے لمس کا ایک احساس ہے۔ یہ قدرت کا دیا ہوا خوبصورت جذبہ ہے۔ اس کی لہریں جیسے ہی چھو جائیں تو دفعتاً ہمارا وجود اس کے اظہار کے لیے مچل جاتا ہے۔ خوشی کے اظہار میں فطرت نے ایسی بے ساختگی رکھی ہے کہ خوش ہوتا ہوا انسان ( اکثر عوامی مجمعے میں) اپنے قریب والے سے لپٹ جاتا۔ اس کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ قریب بیٹھا یا کھڑا ہوا رشتے میں اس کا کچھ نہیں لگتا ہے۔

گول دائروں میں گھومنا اور خوشی کا اظہار کرنا بہت ساری قوموں کی ثقافت کا حصہ ہے۔ بلوچ خواتین شادیوں میں یوں گول گھوم کر ہاتھ سے چاپ (تالیاں) لگا کراس رسم کو مناتی ہیں۔ ثقافت کس طرح وجود پاتی ہے، یہ یقیناً وہاں کی سماجی رویات، اعتقادات، تاریخی ورثوں اور زمیں سے نکلی ہوئی رسومات سے تشکیل پاتی ہے۔ خوشی ایک جذبہ ہے یہ قدرت کی دین ہے ، ہاں البتہ دنیا میں اس کے اظہار کے طریقوں میں فرق ہو سکتا ہے۔ خوش ہونے کے بعد کوئی آوازیں نکالتا ہے، کوئی اپنے منہ سے سیٹی بجاتا ہوا نظر آتا ہے اور بہت سارے اس کا اظہار ناچتے ہوئے کرتے ہیں۔

بہت ساری قوموں کی ثقافت میں منہ سے آواز نکالنا اور سیٹی بجانا شامل ہو گا۔ بلوچ مرد حضرات موسیقی کی مجالس میں، جب بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں تو وہ منہ سے ایک لمبی آواز ”کینژگ“ نکالتے ہیں۔ اسی طرح بلوچ خواتین شادیوں میں گانا بجانا کرتی ہیں تو وہ منہ سے اور زبان کی مدد سے ایک ایسی آواز (الولو) نکالتی ہیں جو اس لمحے کی خوشی کے کلائمکس کو ظاہر کرتا ہے۔

کسی کو ناچ یا تالیاں بجانا پسند نہیں ہے تو یہ اس کی طبعیت اور نفسیات / اورینٹیشن سے جڑے ہوئے مسائل ہیں لیکن اس کے برخلاف قریب تمام ثقافتوں میں اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو برملا اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انسان قدرت کی ایجاد ہے اور ہم کون ہوتے ہیں کہ اس کی رہنمائی کریں۔ ہاں البتہ جو چیز یا حرکت کسی معاشرے میں منع ہے ، اس کا احترام ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نئے لوگ اکثریت میں آ کر خود سے اس کو بدلنا چاہتے ہیں تو دوسرے کون ہوتے ہیں کہ ان کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کریں۔

ہم کیوں آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بننے کے لیے پر تولے ہوئے ہیں۔ عورت کس طرح مرد سے کم ہے ، اس کو کوئی بھی ثابت نہیں کر سکتا بلکہ اگر اس کا ایک اچھا تجزیہ کیا جائے تو عورت مرد سے بڑھ کر سماجی زندگی میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ عورت بچے پیدا کر سکتی ہے، مرد سے بہتر طریقوں سے بچے پال سکتی ہے۔ آج کی عورت ملازمت بھی کرتی ہے۔ رہی بات دوسرے سماجی کاموں میں شرکت کرنے کی تو عورت ہماری کمیونٹی کے ڈھانچے کو ہم سے زیادہ سنبھالے کھڑی ہے۔

پھر بھی عورت بری ہے!؟

زندگی کا ایسا کون سا کام ہے جسے عورت نہیں کر سکتی؟ قدرت نے اس کی حیاتیاتی ساخت میں فرق رکھا ہے، یہ اس کی مرضی تھی لیکن باقی فرق ہمارے بنائے ہوئے ہیں کہ عورت گھر کے کام اچھا کر سکتی ہے۔ بالکل اس کے پاس زیادہ صلاحیتیں ہیں کہ وہ گھر کا کام اچھا کر سکتی ہے لیکن وہ گھر سے باہر کے کام اسی مہارت سے کر سکتی ہے جیسا کہ مرد کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments