آج کے بعد شہباز ہمارا نہیں رہا



ویلکم ٹو میٹنگ روم۔ سر اپنی بریفنگ شروع کرنے والے ہیں۔

جی سر پلیز!

شہباز شریف ہے تو اپنا بندہ، ہم میں اور اس میں آہنگی بے مثال، ماضی کے مراسم لازوال مگر جب بات بڑے میاں کی آتی ہے تو چھوٹے میاں ہم سے ہاتھ کر جاتے ہیں۔ اب بھلا اس آدمی کا کیا کرنا جو بہ وقت ضرورت آگے بڑھ کر ہماری معاونت کی بجائے بھائی کے ساتھ وفاداری کا رٹا رٹایا سبق دہرانا شروع کر دے۔ 1999 میں شہباز کو بہت سمجھایا، وہ سمجھ بھی گیا مگر آخری جواب یہی تھا کہ آخری بات بڑے بھائی کی ہو گی، میں کچھ کرنے سے معذور۔

پھر ہم نے 2004 میں بھی سعودی شہزادوں کے ذریعے شہباز کو اونچی اڑان کی پیشکش کی یعنی تخت لاہور کو اپنی لت سمجھنے والے شہباز شریف کو اول اول وزارت عظمیٰ کی مسند کی اشتہاء دلانے والے ہم ہی تھے۔ 2008 کے الیکشن سے پہلے بھی سمجھایا اور 2016 میں پانامہ لیکس کے بعد بھی مگر چھوٹے میاں ہمارے ہونے کے باوجود بڑے بھائی کے زیادہ اور ہمارے کم نکلے۔ لہٰذا آج کی میٹنگ کا فیصلہ یہی ہے کہ آج کے بعد شہباز ہمارا نہیں رہا۔ شریف ایمپائر کی اگلے سیٹ اپ میں کوئی جگہ نہیں کیونکہ مسز صفدر ہمیں قبول نہیں۔ آج کی یہ میٹنگ برخاست کی جاتی ہے۔

اگلی میٹنگ
سر اب کرنا کیا ہے؟ وٹ نیکسٹ؟

دیکھیے۔ اگلی ہنگ پارلیمنٹ آئے گی۔ مخلوط حکومت بنے گی اور ماضی قریب کی سیاسی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجیے تو ایک ہی پارٹی ہے جس نے مخلوط حکومت نہ صرف اتحادیوں کے ناز نخرے اٹھاتے ہوئے چلائی ہے بلکہ ہمارا ہر طرح کا دباؤ بھی اس نے تحمل سے برداشت کیا ہے۔ مفاہمت سے ہی اگلی حکومت بنے گی اور چلے گی بھی۔ ویسے بھی زمانہ ہو گیا ہم نے سندھ سے وزیراعظم نہیں لایا ہے۔

لیکن سر! ود آؤٹ پنجاب یہ سب کیسے ہو گا؟

ڈیئر آل! میں بتا چکا ہوں ماضی قریب کی مثال ہمارے پاس موجود ہے، ود آؤٹ پنجاب حکومت کرنے والے موجود ہیں اور اب پنجاب میں چوہدری پرویزالٰہی موجود ہے۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 140 نشستیں۔ 2018 میں ن کے حصے میں 65 حلقے آئے تھے، کوئی 60 حلقے ہم نے خود ریزرو کیے تھے۔ اب ہمارے ان 60 میں سے 40 سے 50 اور ن والے 10 سے 15 پرویز الٰہی اور پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈالنے ہیں۔ سارے الیکٹیبلز ق لیگ کا حصہ رہ چکے ہیں، پہلے یہ سائیکل چلاتے تھے، اب ٹریکٹر پہ چڑھنے میں تأمل نہیں کریں گے۔

جنوبی پنجاب کے ماضی کے جیالے دوبارہ اسی کیمپ میں بھیج دیے جائیں گے، بھرپور ہوا بنایا جائے گا کہ ’ن‘ اب قصۂ پارینہ، اگلی باری پھر زرداری، وزیراعظم بلاول۔ اور یوں ہمیشہ اقتدار کی خوشبو سونگھ کر سیاسی قبلہ تبدیل کرنے والا پنجاب کم از کم آدھا مارجن ہمارے نئے سیٹ اپ کو دے دے گا۔ پنجاب کا مکھی منتری پھر گجراتی ہو گا۔ پختونخوا دے کر مولانا کو اکاموڈیٹ کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی سندھ کے قومی اسمبلی کی 40 پنجاب سمیت باقی پاکستان سے 40 سیٹیں نکالتی ہے تو اس کا مطلب ہے اس کے سو سے زیادہ ممبران ہو گئے۔

پرویز الٰہی کو پنجاب میں الیکٹیبلز دلا کر 20 سے 25، مولانا کو کے پی سے اتنی ہی سیٹیں دلائی جائیں گی۔ کراچی سے جو 14 سیٹیں الیکشن کی رات ہم نے آر ٹی ایس بٹھا کر ریزرو کی تھیں ، وہ واپس ایم کیو ایم کو دیں گے۔ یوں پیپلز پارٹی، پرویز الٰہی، جے یو آئی، کراچی اور بلوچ ارکان ملا کے نئے سیٹ اپ میں رنگ بھر دیا جائے گا۔ ن لیک کو فی الحال ہم دھمکیوں میں ہی سمیش کر سکتے ہیں، پنجاب میں اس کو توڑ نہیں سکتے سو وہ ایک مضبوط اپوزیشن ہو گی۔ ہونے دیں نو پرابلم۔

سر! آپ اپنے لاڈلے کو بھول رہے ہیں؟

خاکی ملبوس حاضرین محفل کے سنجیدہ سپاٹ چہروں پر ہنسی کے آثار آ گئے۔ ایک کونے سے آواز آئی ”ایمپائر کی انگلی کھڑی ہو گئی ہے“ ۔ دوسرے کونے سے پھبتی کسی گئی کہ ”ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے“ اور سنجیدہ مگر الجھیڑا کمرہ کشت زعفران بن گیا۔ سر بھی ترنگ میں آ گئے اور کہا:

اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں

آج کی میٹنگ یہیں ختم کی جاتی ہے۔ گیٹ نمبر چار پہ نیا نقشہ لگایا جائے۔ گڈ نائٹ ٹو آل یو۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments