برقعے پر مجوزہ پابندی پر غور کے لیے وقت درکار ہے: سری لنکا
سری لنکا کے وزیرِ پبلک سیکیورٹی سارتھ وراسکیرا نے ہفتے کو کہا تھا کہ انہوں نے کابینہ سے مسلمان خواتین کے برقع پہننے پر پابندی کی منظوری چاہی ہے کیوں کہ ان کے بقول اس کا قومی سلامتی پر براہِ راست اثر ہو گا۔
سری لنکا کی حکومت کے ترجمان کہیلیا رام بکویلا کا کہنا ہے کہ پابندی ایک سنجیدہ فیصلہ ہے جس کے لیے مشاورت اور اتفاق رائے ضروری ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق کہیلیا رام بکویلا نے کابینہ کے فیصلوں کے اعلان کے لیے دی جانے والی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ یہ فیصلہ مشاورت سے کیا جائے گا لہٰذا اس کے لیے وقت درکار ہے۔
قبل ازیں ایک پاکستانی سفارت کار اور اقوامِ متحدہ کے ماہر نے ممکنہ پابندی سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا۔
پاکستان کے سفیر سعد خٹک نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ پابندی صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرے گی۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے خصوصی مندوب برائے مذہبی آزادی احمد شہید نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ یہ پابندی بین الاقوامی قانون اور مذہبی اظہار کی آزادی کے حقوق سے مطابقت نہیں رکھتی۔
Burka bans are incompatible with int’l law guarantees of the right to manifest one’s religion or belief & of freedom of expression!
Sri Lanka to ban burkas, shut Islamic schools for ‘national security’ https://t.co/w0dhgtMUc8
— Ahmed Shaheed (@ahmedshaheed) March 13, 2021
یہ پابندی بدھ مت اکثریت والے ملک سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر گرجہ گھروں اور ہوٹلوں میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد عائد کی گئی تھی۔
ان دھماکوں میں 260 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جب کہ مقامی عسکریت پسند گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
سری لنکا کی جانب سے ہزار سے زیادہ مدارس کو بھی بند کرنے کا منصوبہ ہے کیوں کہ ان کے بقول یہ غیر رجسٹرڈ ہیں اور قومی تعلیمی پالیسی پر عمل نہیں کر رہے۔
یہ مدِ نظر رہے کہ دو کروڑ 20 لاکھ آبادی والے ملک سری لنکا میں تقریباً نو فی صد مسلمان ہیں۔ جب کہ 70 فی صد سے زائد آبادی بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔
اس کے علاوہ 15 فی صد آبادی ایسی ہے جو تامل اقلیت پر مشتمل ہے جس میں زیادہ ہندو مذہب کے ماننے والے بھی شامل ہیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).