پاکستان اسلحہ درآمد کرنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل، بھارت سے خطرہ یا کوئی اور وجہ؟


فائل فوٹو
اسلام آباد — عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری/SIPRI) کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل ہیں۔

بھاری اسلحہ درآمد کرنے والے دنیا کے پہلے 10 ممالک میں پاکستان دسویں جب کہ بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کشیدہ خطے والے روایتی حریف ممالک کے درمیان اسلحے کی دوڑ برقرار ہے جو کہ جوہری ہتھیاروں کی طرف رجحان کو بڑھائے گا۔

پاکستان کا 2016 سے 2020 تک پانچ سالوں میں ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں حصہ 2.7 فی صد رہا جب کہ بھارت کا 9.58 فی صد رہا۔ اس سے قبل 2010 سے 2015 کے دوران بھارت کی ہتھیار خریدنے کی شرح 15 فی صد جب کہ پاکستان کی چار فی صد تھی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے علاوہ آسٹریلیا، چین اور جنوبی کوریا خطے میں اسلحہ درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوئے۔

ہتھیاروں کی عالمی درآمدات میں سعودی عرب کا حصہ 11 فی صد، بھارت کا 9.5 فی صد، مصر کا 5.8 فی صد، آسٹریلیا کا 5.1 فی صد اور چین کا 4.7 فی صد رہا۔

‘سپری’ کی رپورٹ کے مطابق 2016 سے 2020 تک پوری دنیا میں اسلحے کی فروخت کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق اس عرصے میں ہتھیاروں کی خریداری کا رجحان کم ہوتا دکھائی دیا۔

گزشتہ پانچ سالوں کی نسبت پاکستان کی ہتھیاروں کی درآمد میں 23 فی صد کمی آئی تاہم یہ اب بھی دسویں نمبر پر ہے۔ ان پانچ سالوں میں بھارت کی ہتھیاروں کی درآمد میں نسبت 33 فی صد کمی آئی۔

اسلحے کی خریداری میں پاکستان اور بھارت کا موازنہ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنگی ساز و سامان میں اپنے حریف پر برتری کے حصول کی کوشش کا رحجان خاص طور پر تنازعات والے خطوں میں نظر آتا ہے اور اسلحہ خریدنے کا تعلق اس بات سے ہے کہ حریف ملک ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں کتنا آگے جا رہا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ کشیدہ خطوں میں اسلحے کے رحجان میں اضافہ قدرتی عمل ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان دفاعی اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں توازن رکھنا چاہتا ہے جو کہ ان کے بقول معاشی مشکلات اور موزوں ہتھیاروں کی دستیابی نہ ہونے کے سبب مکمل طور پر نہیں کر پا رہا ہے۔

امجد شعیب کہتے ہیں کہ بھارت جنگی ہتھیاروں کے اعتبار سے پاکستان پر سبقت رکھتا ہے اور عالمی سیاست کی وجہ سے بھی بھارت کو مسلح کر کے چین کے مقابلے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بھارت چین کے سامنے کھڑا نہیں ہو گا جس کی مثال حال ہی میں لداخ میں دیکھی گئی لیکن نئی دہلی کا عسکری طور پر ابھرنا پاکستان کے لیے خطرہ ضرور ہے جس کے سدِباب کے لیے اسلام آباد کو دفاعی اخراجات مجبوراً بڑھانا ہوتے ہیں۔

امجد شعیب کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث بھی پاکستان کو اپنے اسلحے کی تبدیلی کے لیے خریداری کی ضرورت پڑی۔

دفاعی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ بھارت کی جانب سے اسلحے کی خریداری میں اضافہ خطے میں غیر مستحکم صورتِ حال پیدا کر رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اندازے کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت آئندہ 10 سالوں میں تقریباً 100 ارب ڈالرز کی اسلحے کی خریداری کرے گا۔ ان کے بقول نئی دہلی کا اسلحے کی خریداری کا فیصلہ بذاتِ خود نہیں لگتا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک بھارت کو چین کے مقابلے میں مسلح کر رہے ہیں۔

ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اسلحے کی خریداری کا موازنہ کیا جائے تو اس میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ 2019 میں بھارت کے لڑاکا طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جس کے بعد جوہری جنگ کے خطرات واضح طور پر دیکھائی دیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں سے خطرات کم نہیں ہوئے اور بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ اندرونی خطرات بھی موجود ہیں جس کے سبب پاکستان کو اسلحے کی خریداری کی ضرورت ہے تاکہ اس پر بے جا جنگ مسلط نہ کی جائے۔

بھارت کا امریکہ، پاکستان کا چین پر انحصار

‘سپری’ کے رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ حالیہ عرصے میں بھارت کا اسلحے کے حوالے سے امریکہ پر جب کہ پاکستان کا چین پر انحصار بڑھا ہے۔

پاکستان نے اس عرصے میں سب سے زیادہ ہتھیار چین سے درآمد کیے جن کی شرح ملک کی مجموعی درآمد کا 74 فی صد رہی، اس کے بعد روس سے 6.6 فی صد اور اٹلی سے 5.9 فی صد ہتھیار حاصل کیے۔

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران بھارت کی روس سے اسلحہ خریداری میں 53 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

بھارت کی امریکہ کے ساتھ اسلحے کی خریداری میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ 2010 سے 2015 کے درمیان امریکہ بھارت کو ہتھیار سپلائی کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا تاہم دوسرے پانچ سالوں میں اس کی برآمدات میں 46 فی صد کمی آئی۔

لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ امریکہ نے ایف 16 طیاروں کی فراہمی سمیت پاکستان کے ساتھ طے اسلحے کی فراہمی کے بعض سودے منسوخ کر دیے تھے جس کے بعد اسلام آباد نے دیگر ممالک سے رُجوع کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنی استعداد کو بھی بڑھانا چاہتا ہے جس کے لیے اسے چین سے مدد ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی بنا پر پاکستان چین کا دفاعی شراکت دار ہے۔

امجد شعیب ک کہن ہے کہ امریکہ کے ساتھ دفاعی شراکت داری میں آنے کے بعد واشنگٹن نے نئی دہلی پر دباؤ ڈالا کہ وہ روس کے ساتھ اسلحے کی خریداری کی معاہدے نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اعلانیہ طور پر بھارت کو روس کا ایس 400 میزائل دفاعی نظام کا معاہدہ منسوخ کرنے کا کہا۔

ڈاکٹر ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ اس وقت امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی نوعیت کے بہت سے معاہدے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے دفاعی شراکت دار ہیں۔

ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کا کوئی دفاعی معاہدہ موجود نہیں ہے جس کے باعث پاکستان کی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے اسلحہ تک رسائی کم ہوگئی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نہیں چاہتا کہ وہ دفاعی اعتبار سے ایسے ممالک پر انحصار کرے جو سیاسی وجوہات کی بنا پر کسی وقت میں رکاوٹ کا باعث بن جائیں۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پوری دنیا میں درآمد کیے جانے والے مجموعی ہتھیاروں کا ایک تہائی سے زیادہ امریکہ نے فروخت کیا۔

روس اور چین دونوں کے اسلحے کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ روس سے اسلحے کی برآمد میں 22 فی صد کمی واقع ہوئی ہے جب کہ چین کی برآمدات میں 7.8 فی صد کمی آئی ہے۔

سپری کی رپورٹ کے مطابق 2016 سے 2020 تک پوری دنیا میں اسلحے کی فروخت نسبتاً کم رہی اس عرصہ میں ملکوں کے درمیان اسلحے کے بڑے سودے نہیں ہوئے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments