حکومت الیکشن کمیشن سے کیوں ناراض ہے؟


حکومت نے الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنرسے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ شاید پہلا موقع ہے کہ کوئی حکمران جماعت الیکشن کمیشن کے خلاف اس حد تک منہ زور ہوچکی ہے کہ وہ اب وہ علی الاعلان اس کی اتھارٹی اور غیر جانبداری سے انکار کررہی ہے۔ حکومت اگر الیکشن کمیشن کے خلاف اپنی مہم جوئی میں کامیاب ہوگئی اور ملک میں حکمرانوں کی خوشنودی کے مطابق کام کرنے والی انتخابی اتھارٹی قائم کی گئی تو جمہوریت کی بالا دستی کو بھول جانا چاہئے۔
حکمران تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن پر سیاسی جماعتوں اور عوام کا اعتماد ختم ہوچکا ہے۔ اس لئے الیکشن کمیشن کے سب ارکان خود مستعفیٰ ہوجائیں تاکہ پارلیمنٹ قابل اعتبار الیکشن کمیشن قائم کرسکے۔ یہ اعلان تین وزیروں کے ایک پینل نے آج ایک پریس کانفرنس میں کیا ہے جس میں الیکشن کمیشن پر حملہ کرنے کی ذمہ داری وزیر تعلیم شفقت محمود کو دی گئی تھی لیکن ’حوصلہ افزائی ‘ کے لئے وزیر اطلاعات شبلی فراز اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری ان کے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں شفقت محمود نے تسلیم کیا کہ حکومت الیکشن کمیشن کے خلاف ریفرنس لانے کا ارادہ تو نہیں رکھتی لیکن یہ اس کا ’سیاسی ‘ مؤقف ہے۔
حیرت ہے کہ ملک کی سیاسی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن عوام کے حق رائے دہی کی حفاظت کرنے اور ملک میں شفاف انتخاب کروانے میں ناکام ہوچکا ہے تو وہ اس کے خلاف دستیاب آئینی راستہ کیوں اختیار نہیں کرتی؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ حکومت کسی بھی آئینی فورم پر بیک وقت چیف الیکشن کمشنر اور اس کے چاروں ارکان کے خلاف اپنا مقدمہ لے کر نہیں جاسکتی۔ اسے کسی ایک پر کوئی خاص الزام لگاتے ہوئے، اپنے مؤقف کو دلیل کی صورت میں شواہد کے ساتھ پیش کرنا پڑے گا۔ لیکن الیکشن کمیشن کے خلاف ’سیاسی بیان بازی‘ سے ایک اہم آئینی ادارے کی شہرت کو نقصان پہنچا کر حکومت اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرسکتی ہے۔
حکو متی نمائیندوں کے نزدیک یہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ملکی مفاد، جمہوریت کے مستقبل یا عوامی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اس کا اصل خوف یہ ہے کہ آئیندہ کسی بھی انتخاب میں الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری سے اس کی دگرگوں عوامی مقبولیت کا راز فاش ہوسکتا ہے جس سے حکومت کے بلند بانگ نعروں اور دعوؤں کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس طرح تحریک انصاف اگر اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری بھی کرلے تب بھی اس کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہوگی۔ اس کے برعکس اگر حکومت اس اتھارٹی کو ہی مشتبہ قرار دینا شروع کردے جو ملک میں انتخاب کروانے کی ذمہ دار ہے تو وہ اپنی ناکامی کا الزام الیکشن کمیشن کی ’دھاندلی اور جانبداری‘ کو دیتے ہوئے سیاسی طور سے خود کو محفوظ کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ کسی بھی ملک کی حکمران سیاسی جماعت کا ایسا افسوس ناک رویہ ناقابل قبول ہے اور اس کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے بنفس نفیس الیکشن کمیشن کو ’جمہوریت دشمن ‘ قرار دیا تھا۔ عمران خان اور حکومت کے اس جارحانہ رویہ کی بنیادی اور قابل فہم وجہ صرف یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کا جواب دیتے ہوئے حکومت کو مایوس کیا تھا اور یہ واضح کردیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ کا انتخاب خفیہ بیلیٹ کی بنیاد پر منعقد کروانے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کی رائے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شفاف انتخاب منعقد کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور وہ اس مقصد کے لئے تمام ضروری انتظامات کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ تمام ریاستی ادارے اس کام میں الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے کے پابند ہیں۔ سپریم کورٹ نے البتہ اس رائے کا اظہار بھی کیا تھا کہ خفیہ ووٹنگ کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی ووٹ ہر صورت میں ہمیشہ کے لئے خفیہ ہی رہے گا۔
حکومت سپریم کورٹ کی رائے میں اس فقرے کی روشنی میں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ سینیٹ انتخاب میں بیلیٹ پیپرز کو مارک کردیا جائے تاکہ بعد میں ان کی شناخت ہوسکے۔ الیکشن کمیشن نے وقت کی قلت کی وجہ سے سپریم کورٹ کی رائے کی تشریح کرنے کی بجائے ، اس مقصد سے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ مستقبل میں کسی کمی بیشی کو دور کیا جاسکے۔ تاہم ملکی آئین اور صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے، دونوں ہی دو ٹوک انداز میں یہ بات کہتے ہیں کہ سینیٹ الیکشن خفیہ رائے دہی سے ہی ہوسکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی رائے پر حکومت کا مؤقف اس رائے کو اپنے انداز میں بیان کرنے اور اپنے سیاسی مؤقف کی تائید کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اسی ایک نکتہ پر پہلے وزیر اعظم الیکشن کمیشن پر حملہ آور ہوئے تھے اور اب وفاقی وزیروں نے الیکشن کمیشن کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔
سینیٹ انتخاب کے بارے میں حکومت نے روپوں کے استعمال اور خرید و فروخت کا جو ہنگامہ بپا کیا تھا ، اسے ثابت کرنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی شواہد نہیں ہیں لیکن بدعنوانی کے نعرے حکومتی نااہلی کو چھپانے کے لئے استعمال کرتے ہوئے ، اب ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کو سنسنی خیز موضوع گفتگو بنالیا گیا ہے۔ ایسی حرکتیں صرف وہی حکومت کرتی ہے جس کے پاس ملکی فلاح اور انتظامی بہتری کا کوئی منصوبہ نہ ہو۔ وہ اپنی ناکامیوں کو کامیابی میں تبدیل کرنے کا کوئی راستہ نہ جانتی ہو اور اپوزیشن کے دباؤ سے بدحواس بھی ہو۔ حالانکہ عملی طور سے حکومت سینیٹ انتخاب میں ووٹ بکنے اور خریدنے کا الزام لگاتے ہوئے بھی اپنی ہی پارٹی کے ان ارکان اسمبلی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی جنہوں نے سرکاری امیدوار کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ بدقسمتی سے عمران خان اینڈ کمپنی یہ جاننا بھی نہیں چاہتی ہے کہ خاص طور سے حفیظ شیخ کو ارکان اسمبلی نے کیوں مسترد کیا تھا؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی پارٹی کو اپنے ان ارکان کا پتہ نہ ہو جو کسی ایک خاص معاملہ پر پارٹی مؤقف سے متفق نہ ہوں اور اس کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہوں۔ قومی اسمبلی کے ارکان کو سینیٹ انتخاب میں انفرادی طور سے ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ عام طور سے ارکان پارٹی قیادت کے فیصلے کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں لیکن اس کے خلاف رائے دینا نہ تو اخلاقی لحاظ سے غلط ہے اور نہ ہی اس پر کوئی قانونی قد غن ہے۔ البتہ یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی رکن اسمبلی پارٹی فیصلے سے مطمئن نہیں ہے تو وہ برملا اس کااظہار کرے۔ تاہم اس کا جواب عمران خان کو اپنی ہی پارٹی کے کلچر اور اس پر مسلط ذاتی آمریت میں تلاش کرنا چاہئے۔ گو کہ ملک کی کم و بیش سب سیاسی جماعتیں کسی نظام کی بجائے افراد کے قبضہ قدرت میں ہیں لیکن یہاں پر خاص طور سے تحریک انصاف کا ذکر یوں کیا گیا ہے کہ یہی پارٹی ارکان کی وفاداری کو کسی مقدس دستاویز کی طرح پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
الیکشن کمیشن سے عمران خان یا تحریک انصاف کی شکایات صرف سینیٹ انتخاب تک محدود نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف اسمبلیوں میں اپنی نمائیندگی کے مطابق سینیٹ کی سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ صرف بلوچستان میں پارٹی کا کوئی امید وار کامیاب نہیں ہؤا لیکن اس کی وجہ عمران خان اور تحریک انصاف کا سیاسی جوڑ توڑ اور کسی حد تک بدنیتی تھی۔ اس کے نتیجے میں عمران خان کے پسندیدہ عبدالقادر پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے محروم ہونے کے بعد آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے اور پھر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد بھی عمران خان یا تحریک انصاف اگر سینیٹ انتخاب میں بے ایمانی کا الزام لگاتی ہیں تو انہیں آئینے میں اپنا عکس بھی دیکھنا چاہئے۔
حکومت کو صرف اپنے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی ناکامی کا دکھ نہیں ہے۔ یہ ایک نشست ہار کر قومی اسمبلی میں حامی ارکان پر عمران خان کے ’کنٹرول‘ کا پول ضرور کھلا ہے تاہم قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اور ’بکاؤ‘ 16 ارکان کو دوبارہ اپنے سایہ عاطفت میں جگہ دے کر، اس کا کسی حد تک مداوا کرلیا گیا تھا۔ رہی سہی کسر سینیٹ میں اقلیتی گروہ ہونے کے باوجود، چئیرمین ا ور ڈپٹی چئیرمین کے عہدے جیت کر پوری کردی گئی۔ اگر یوسف رضا گیلانی کسی بدعنوان پریکٹس سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے تو انہیں چئیرمین سینیٹ بننے سے روکنے کے لئے شبلی فراز کے بقول حکومت نے بھی ہر ہتھکنڈا اختیار کیا۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے عمران خان کا اصل خوف مستقبل میں پیش آنے والے واقعات ہوسکتے ہیں۔ جن میں ضمنی انتخابات کے علاوہ تحریک انصاف کے خلاف پارٹی فنڈنگ کیس کا معاملہ بھی شامل ہے۔
الیکشن کمیشن میں یہ معاملہ کئی سال سے زیر غور ہے۔ اگر یہ کیس بے بنیاد ہوتا اور درخواست دہندہ کے پاس تحریک انصاف کے اکاؤنٹ میں گھپلوں اور غیر قانونی طریقوں کے ٹھوس ثبوت نہ ہوتے تو اس کیس کو بہت پہلے داخل دفتر کیا جاچکا ہوتا۔ تحریک انصاف نے خود اس معاملہ کو التوا میں ڈالنے کے لئے پے در پے جو ہتھکنڈے اختیار کئے ہیں، وہ ’چور کی داڑھی میں تنکا‘ والا معاملہ ہے۔ اب حکومت کو خوف ہے کہ الیکشن کمیشن نے جس طرح ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں دھاندلی کی کوشش کو بے نقاب کیا اور تمام صوبائی انتظامیہ کو متنبہ کیا ، اگر اس نے اسی مزاج کو برقرار رکھا تو پارٹی فنڈنگ کیس میں فیصلہ اس کے خلاف بھی آسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن پر حملے دراصل اس ممکنہ خوف سے بچاؤ کے پیشگی ہتھکنڈے ہیں تاکہ بعد میں یہی حکومتی نمائیندے یہ کہتے ہوئے الیکشن کمیشن کے کسی منفی فیصلے کے سیاسی نقصان سے بچنے کا اہتمام کرسکیں۔
الیکشن کمیشن کے خلاف جارحانہ حکومتی طرز عمل کی کوئی وجہ بھی ہو لیکن ایک آئینی ادارے کو متنازعہ بنانے کی یہ کوشش ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت مسلسل ریاستی اداروں کی جکڑ بندیوں کا شکار ہے۔ ایسے میں اگر سرکاری طور پر الیکشن کمیشن کو کمزور یا متنازعہ بنایا جائے گا تو اس سے جمہوریت کا سفر مخدوش ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments