کورونا ویکسینیشن سنٹرز حکومت سندھ کی توجہ چاہتے ہیں


کویڈ 19 کی وبا ملک میں آئے ایک سال سے زیادہ ہو گیا، پہلی، دوسری اور اب تیسری لہر کا سامنا ہے، گزشتہ سال ماہ رمضان میں بھی وبا عروج پر تھی اور حالات بتا رہے ہیں کہ شاید امسال بھی ماہ رمضان میں اس میں شدت آ جائے گی۔ سوال یہ ہے کیا تینوں بار ہمیں کسی نئے قسم کے کورونا کا سامنا رہا یا پھر کورونا ملک سے چلا گیا اور پھر دوبارہ آیا؟ یقیناً ایسا نہیں ہے بلکہ تینوں بار انتظامی کوتاہیوں اور عوامی بے احتیاطی کے باعث اس میں اضافہ ہوا جس کو ہم پہلی دوسری اور تیسری لہر کہہ رہے ہیں۔

شہر کراچی میں پہلی لہر میں جب اموات کی تعداد بڑھنے لگیں، مساجد، مدرسے، مزارات، ریسٹورانٹ، پارک، سینما اور درسگاہیں بند کرنی پڑیں اور گھروں سے کام کرنے کو کہا گیا ، اس وقت بھی تاخیر کی سبب ہمیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کسی بھی چیز کو شروع کرنے سے پہلے ہوم ورک مکمل نہیں کیا جاتا ‏، ادارے اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب پانی ناک تک پہنچ جاتا ہے اور نتیجہ بد انتظامی اور بے احتیاطی کی صورت میں سامنے آتا ہے، ۔

ماضی میں ایسے ہوم ورک کے بغیر شروع کیے جانے والے کاموں کے نتائج ہم دیکھ چکے ہیں جس میں سوائے نقصان کے کچھ نہیں ہوا، چاہے کتابی ڈرائیونگ لائسنس کے کمپیوٹرائز لائسنس میں تبدیلی کا اعلان ہو، موٹر سائیکلوں کے لیے الگ لین بنانی ہو، کراچی سرکلر ریلوے چلانی ہو یا پھر کورونا سے متاثرہ علاقوں میں لاک ڈاؤن کرنا ہو۔

ایسی ہی بدانتظامی اس وقت بھی دیکھنے میں آ رہی ہے ، کچھ دن پہلے جب بزرگ شہریوں کی کورونا ویکسینیشن شروع کرنے کا اعلان ہوا اور ایس ایم ایس کے ذریعہ 1166 پر 70 سال سے زائد لوگوں کو رجسٹریشن کرانے کا مشورہ دیا گیا تو اس وقت تک رجسٹریشن کا سلسلہ ہی شروع نہیں کیا گیا تھا کئی لوگوں نے 1166 پر رجسٹریشن کرانے کے لیے اپنا شناختی کارڈ نمبر ارسال کیا تو انہیں جواب موصول ہوا کہ ابھی رجسٹریشن کا سلسلہ شروع نہیں کیا گیا ہے ، آپ کچھ روز بعد رابطہ کریں۔

حکومت سندھ کی جانب سے شہر کراچی میں جن ویکسینیشن سینٹرز کے قیام کا اعلان کیا گیا، کئی بزرگ شہریوں کا کہنا ہے کہ جب ہم رجسٹریشن کے موصولہ جوابی ایس ایم ایس میں درج ‏ ویکسینیشن سینٹر پہنچے تو ان میں سے کئی سینٹرز اس سے بھی لاعلم تھے کہ ان کے اسپتال کو ویکسینیشن سینٹرز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، ایسی صورت حال شہر کے کئی علاقوں میں قائم کیے جانے والے ویکسینیشن سینٹروں میں دیکھنے کو ملی۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر کے اہم ویکسینیشن سنیٹروں میں بزرگ شہریوں کی خاصی زیادہ تعداد دیکھنے میں آئی جہاں بزرگ صبح سات بجے ہی پہنچ گئے۔ شہر کراچی میں اب تک 28 ویکسینیشن سینٹروں کا اعلان کیا جا چکا ہے لیکن تمام کے تمام میں اب تک ویکسینیشن شروع نہیں کی گئی ہے۔

اس بد انتظامی کے باعث ایک اور صورت حال بھی پیدا ہو رہی ہے کہ جن سینٹروں میں ویکسینیشن شروع کی جا چکی ہے ، وہاں گنجائش سے زیادہ تعداد میں لوگ پہنچ رہے ہیں جہاں ایک طرف تو کورونا ایس او پیز پر مکمل عمل نہیں ہوپارہا تو دوسری طرف سینٹروں میں کئی کئی گھنٹے انتظار کے باعث کئی بزرگوں کا بلڈ پریشیر بڑھ جاتا ہے اور جب ان کی باری آتی ہے تو ان کے بڑھے ہوئے بلڈ پریشر کو دیکھتے ہوئے ان کو ویکسین نہیں لگائی جاتی اور انہیں واپس روانہ کر دیا جاتا ہے کہ آپ ایک ہفتہ بعد دوبارہ آئیں۔ سینٹروں میں اب تک ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ جن بزرگوں کو بلڈ پریشر کا مسئلہ پیدا ہوا ہو، انہیں کوئی میڈیسن دے کر سینٹر میں ہی انتظار کرایا گیا ہو تاکہ وہ دوبارہ آنے کی زحمت سے بچ سکیں۔

اس حوالے سے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ این سی او سی اور این آئی ایم ایس اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ جب کہ سندھ میں اس وقت ویکسین کی کمی کا بھی سامنا ہے، شاید اسی صورت حال کے پیش نظر سندھ حکومت کی جانب سے گزشتہ دنوں شہر کراچی میں ایک اور ویکسینیشن سینٹر کا اعلان کیا گیا ہے جہاں 24 گھنٹے ویکسینیشن کی جا رہی ہے جو ایک اچھا قدم ہے، اس قسم کے اقدامات سے شہر کے کسی ایک دو سینٹروں میں زیادہ رش ہونے کا سلسلہ ختم ہو جائے اور بزرگ پرسکون ماحول میں اپنی ویکسینیشن کراسکیں گے۔

ایسی صورت حال کا سامنا اس وقت ہی ہوتا ہے جب ہم کوئی فیصلہ عجلت میں کریں یا پھر اس کے شروع کرنے سے پہلے اس پر ہوم ورک مکمل نہ کریں۔ حکومت سندھ کو اس حوالے سے سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے زیادہ احتیاط کرنی ہو گی، اگر اسی طرح انتظامی کوتاہیاں جاری رہیں تو ہم کورونا کو خود مزید خطرناک بنا دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments