یکساں نظام تعلیم لائیں مگر والدین سے بھی پوچھ لیں


ہمارے ملک پاکستان میں ابتدائی تعلیم کے دو طرح کے تعلیمی ادارے ہیں۔ جہاں الگ الگ طبقات کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

سرکاری اسکول اور پرائیویٹ اسکولز اور کچھ نیم سرکاری اسکول۔ یہ تو واضح ہے کہ سرکاری اسکول میں بچوں کی زیادہ تعداد خط غربت سے نیچے سے آنے والوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے بعد دوسرا نمبر نیم سرکاری اور پرائیویٹ اسکول کا ہے یہاں بھی مزید درجہ بندی ہے۔ ہر اسکول اپنے معیار کے حساب سے فیس شیڈول کرتا ہے ، یہ معیار ان اسکولوں میں کی میز کرسی کی وجہ سے نہیں بلکہ اسکول کے طلبا کو دی جانے والی تعلیم کی وجہ سے ہوتا ہے۔

کچھ اسکولوں میں وفاقی بوڑ سے امتحانات دلوائے جاتے ہیں ، کچھ اپنے صوبے کے بوررڈ سے امتحانات دلواتے ہیں۔ جبکہ وہ اسکول جو او لیول اور کیمبرج سسٹم میں بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں وہ اپنا سارا نصاب انگریزی میں پڑھا رہے ہیں۔

حکومت نے حال ہی میں ایک بل پاس کیا ہے جس کو وہ تمام اسکولوں پر لاگو کریں گے اور وہ یہ ہے کہ پرائمری سیکشن میں اور جماعت پنجم سے ہشتم تک معاشرتی علوم اردو میں پڑھائی جائے گی۔

سرکاری اسکولوں میں بچوں کو یہ اردو میں پڑھانا مشکل نہیں ہے کیونکہ ان اسکولوں کانصاب ایسا ہے کہ بچہ سبق ازبر کرتا ہے اور اسے اردو میں بہت مہارت حاصل ہوتی ہے ۔ استاد اردو زبان کا استعمال کرتے ہیں ، اردو کا مضمون پڑھاتے وقت ان کی لکھائی بہتر بنائی جاتی ہے۔ وہاں اگر اگلے تعلیمی سال میں یہ مضمون اردو میں ہڑھایا گیا تو بچوں پہ کوئی بوجھ نہیں ہو گا۔

دوسری طرف بات ہے پرائیویٹ اسکولوں کی ، جہاں نصاب آکسفورڑ کا پڑھایا جاتا ہے اور بچے کو اپنے نصاب کے سوالات کا جواب اپنی سمجھ کے حساب سے دینا پڑتا ہے۔ ان اسکولوں میں استاد اور شاگرد کی باہمی زبان بھی انگریزی ہوتی ہے بلکہ جیسے جیسے اسکولوں کی فیس بڑھتیں ہیں ویسے ویسے وہاں انگریزی زبان بہتر سے بہترین سکھائی جاتی ہے۔

والدین اپنے بچوں کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم دلانے کے لئے ایسے اسکول کا انتخاب کرتے ہیں جہاں بچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی زبان پر بھی پوری دسترس حاصل کرے۔

اب اگر ایسے اسکولوں میں معاشرتی علوم اردو میں پڑھائی جانا شروع ہوئی تو اس سے امید افزاء نتائج کے بجائے پوری ایک نسل دباؤ کا شکار ہو جائے گی۔

جو بچہ اپنے نصاب میں اردو اور اسلامیات کے علاوہ تمام مضمون انگریزی میں پڑھتا رہا ہے بلکہ کچھ بچے جو اسلامیات اردو میں نہیں پڑھنا چاہتے ، وہ اس مضمون کو انگریزی میں پڑھتے ہیں۔ ایسے اسکولوں میں اب اگر دو مضمون اردو میں پڑھانا شروع کردیے جائیں تو ان طلبا کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔ جبکہ ان میں سے کچھ کو بیرون ملک یہ پرچے دینے ہوں گے۔

حکومت پاکستان نے تمام اسکولوں میں دوہرا معیار ختم کرنے کے لئے یہ عمل شروع کیا ہے جبکہ اس دوہرے معیار کو ختم کرنے کے کئی اور طریقے بھی تھے۔

جیسے کہ سرکاری اسکول کا نصاب اور یونیفارم حکومت وقت فراہم کرے۔
ان اسکولوں کو بین الاقوامی اسکولوں کے معیار کے برابر لایا جائے۔
اسکول میں آئی ٹی لیب بنائی جائے اور کمپیوٹر کا مضمون نصاب میں شامل کیا جائے۔
بچوں کو اسکول میں صحت مند غذا فراہم کی جائے۔
ان اسکولوںوں میں فرنیچر اور بیت الخلاء معیاری ہوں۔
کھیلوں کی سرگرمیاں فراہم کی جائیں۔
جو بچے پڑھائی سے بھاگتے ہیں ان کی کونسلنگ کی جائے۔
جماعت میں طالب علموں کی مخصوص تعداد مقرر کی جائے تاکہ سب بچے استاد کی توجہ حاصل کر سکیں۔

اگر ملک میں واقعی معیار تعلیم یکساں کرنا مقصود ہے تو نیچے سے اوپر اٹھائیں نہ کہ تعلیمی معیار کو مزید پیچھے اور نیچے دھکیل دیا جائے۔

پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگی فیسیں دیتے وقت والدین کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ بچے کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم دلوا رہے ہیں اب جب اس طرح نصاب میں تبدیلی کردی جائے گی تو طلبا اعصابی دباؤ کا شکار ہو جائیں گے اور ان کے سیکھنے کے عمل میں بھی دشواری پیدا ہو گی۔

اس وقت دنیا بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ پچھلے دنوں آنے والی وبا کی وجہ سے تمام دنیاوی کاروبار کمپیوٹر پہ آ گئے ہیں۔ آج کل کرنسی بھی ”بٹ کوائن“ اور ”پائی“ آن لائن ہیں۔ پوری دنیا انٹرنیٹ کے ذریعے رابطے میں ہے۔ یہ ہمارے ملک پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ان حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار کریں اور وقت کی ضرورت کے حساب سے ان کا ابتدائی تعلیمی نصاب مرتب کریں تاکہ وہ اپنے ملک اور اپنے بہتر مستقبل کے لئے تیار ہو سکیں۔

اعلیٰ حکام کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے خاص طور پر جب وہ فیصلہ قوم کے بچوں سے تعلق رکھتا ہو ، ان کے والدین سے مشاورت ضرور کرنی چاہیے۔ اس سے نہ صرف والدین کسی اچانک افتاد پڑنے سے بچ جائیں گے بلکہ بچے بھی ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments