وزیراعظم عمران خان کا امتحان


وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا ایک بنیادی نکتہ سینیٹ میں سیاسی برتری اور بالخصوص چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشستوں پر اپنے افراد کی بنیاد پر سیاسی مخالفین پر برتری حاصل کرنا تھی۔ تحریک انصاف سینیٹ میں عددی برتری حاصل کر چکی ہے اور اس کی نشستوں کی تعداد باقی تمام جماعتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ حکومت کا موقف تھا کہ ہمیں بہتر اور مؤثر انداز میں حکمرانی کرنے کے لیے سینیٹ میں سیاسی برتری درکار ہے۔ کیونکہ حکومت کو سینیٹ میں قانون سازی کے حوالے سے سازگار حالات میسر نہیں تھے تو وہ بہتر قانون سازی نہ ہونے کو سینیٹ میں برتری نہ ہونے سے جوڑتے تھے۔

لیکن اب حالیہ سینیٹ کے انتخابات اور نتائج کے بعد حکومت کے پاس کچھ نہ کرنے کا جواز جو سینیٹ کے تناظر میں پیش کیا جاتا تھا وہ عملی طور پر ختم ہو گیا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے بعد اگرچہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان پہلے سے جاری بداعتمادی یا محاذ آرائی کی کیفیت میں کمی ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ سیاسی حالات میں کشیدگی، غیر یقینی، محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی سیاست کو ہی غلبہ رہے گا۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قوتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف کی سیاست کا حصہ ہوں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے انہی غلطیوں کو دہراتی ہیں جو سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس مرکز، دو صوبوں خیبر پختوخواہ پنجاب، جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت میں حصہ داری، گلگت بلتستان میں حکومت اور اب سینیٹ میں سیاسی برتری ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کسی کمزور پوزیشن میں نہیں ہے۔

2023 نئے انتخابات کا برس ہو گا۔ کچھ سیاسی پنڈتوں کے بقول یہ انتخابات 2022 میں بھی ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم حکومت کا سیاسی چیلنج دیکھیں تو اس میں چھ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول وہ کیسے حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کا سیاسی طور پر مقابلہ کرتے ہیں اور کیسے پی ڈی ایم کے حکومت گراؤ چیلنج کو ناکام بناتے ہیں۔ کیونکہ پی ڈی ایم کسی بھی صورت میں حکومت کو سیاسی بنیادوں پر مضبوطی سے کھڑا نہیں ہونے دے گی اور وہ تواتر کے ساتھ حکومت کے لیے عدم استحکام کی سیاست کو زندہ رکھے گی۔

دوئم حکومت آنے والے دو برسوں میں سیاسی اور معاشی محاذ پر ایسا کیا کچھ کرتی ہے کہ جس سے عام آدمی کو سیاسی و معاشی ریلیف مل سکے اور عام لوگوں کا حکومت پر سیاسی اعتماد بحال ہو سکے۔ کیونکہ معاشی ریلیف ایک بڑا مسئلہ ہے جو ہر سطح پر حکومت کو عوامی مفاد کے تناظر میں درپیش ہے۔ سوئم حکومت کا بڑا سیاسی دعویٰ ملک میں شفاف احتساب کرنا تھا اور اب وہ اس مسئلہ پر سب کچھ حاصل کر کے کچھ بڑا کام کر سکیں گے اور اپنے ووٹروں کو مطمئن کر سکیں گے کہ وہ اس عمل میں کامیاب ہوئے ہیں۔

چہارم وہ ایسی کیا اصلاحات سیاسی، سماجی، معاشی، انتظامی اور قانونی محاذ پر کرنے میں کامیاب ہوتی ہے جو ملک میں ادارہ جاتی عمل کو نہ صرف مضبوط کرے بلکہ اس میں ہر سطح پر شفافیت بھی دیکھنے کو مل سکے۔ کیونکہ جمہوری نظام کی بہتری بنیادی طور پر اصلاحات پر مبنی ایجنڈے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔

پنجم اچھی حکمرانی اور اس کے لیے اچھی ٹیم کے چناؤ میں کچھ بنیادی تبدیلیوں کو کیسے ممکن بنا سکیں گے۔ کیونکہ ان کی موجودہ ٹیم میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو عملی طور پر حکومت کے آسانی کم اور مشکلات زیادہ پیدا کر رہے ہیں اور یہ لوگ حکومت پر سیاسی بوجھ بن گے ہیں۔

ششم اگر ملک میں اس برس مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوتے ہیں تو کیسے ان انتخابی نتائج میں حکومت اور ان کی اتحادی جماعتیں اپنی سیاسی برتری ثابت کر سکیں گی۔

وزیراعظم عمران خان کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ اب ان کے پاس اگلے عام انتخابات سے قبل وقت بہت زیادہ نہیں۔ عمران خان حکومت کو عملی طور پر ان پانچ برس کے اقتدار میں عوام کو دکھانے کے لیے ایک بڑے سیاسی شوکیس کی ضرورت ہے۔ اس شوکیس میں یقینی طور پر ان کے پاس ایسے عملی منصوبے، اصلاحات، قانون یا پالیسی سازی لوگوں کو دکھانی ہو گی کہ ان کی حکومت ایک درست سیاسی ٹریک پر گامزن ہے۔

اگرچہ حکومت نے وفاقی اور صوبائی سطح پر کئی منصوبوں کو شروع کر رکھا ہے لیکن ان منصوبوں کی 2022 میں تکمیل ہی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ اسی طرح معاشی بدحالی اور مہنگائی کا خاتمہ اور لوگوں کو معاشی ریلیف ہی حکومت کی سیاسی ساکھ کو قائم کرنے میں مدد دے سکے گا۔ لوگ سیاسی نعروں یا جذباتی گفتگو کی بجائے عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے حکومت سطح پر عوامی خدمت یا ان کو سیاسی و معاشی ریلیف کے لیے حکومت کو ہنگامی یا بڑی سیاسی سرجری کی بنیاد پر کام کرنا ہو گا۔

حزب اختلاف کا اتحاد پی ڈی ایم کی کوشش ہوگی کہ وہ ہر صورت میں حکومت کو محاذ آرائی کی سیاست میں ہی الجھائے رکھیں تاکہ وہ حکومتی سطح پر کارکردگی کی بجائے لعن طعن یا الزامات کی سیاست میں الجھ کر وہ کچھ نہ کر سکیں جو ان کو سیاسی فائدہ دے سکے۔ اس لیے وزیراعظم سمیت خود ان کی حکومت میں شامل افراد کا بھی بڑا امتحان ہو گا کہ وہ خود کو محاذ آرائی کی سیاست میں الجھانے کی بجائے اپنی ساری توجہ حکومتی کارکردگی پر ہی دیں جو ان کو سیاسی فائدہ دے سکتا ہے۔

وزیراعظم ضرور اپنے سیاسی مخالفین کا احتساب کریں لیکن اس پر بہت زیادہ شورمچانے کی بجائے ان معاملات کو انصاف سے جڑے اداروں تک محدود کر دیا جائے اور وہی احتساب کا فیصلہ کر سکیں۔ کیونکہ تواتر کے ساتھ حکومت کا احتساب کو بنیاد بنا کر سیاسی مخالفین پر حملہ محض الزامات کی سیاست کو ہی طاقت دے رہا ہے۔

حکومت کے پاس اب یہی آپشن موجود ہے کہ وہ لانگ ٹرم منصوبے ضرور بنائے لیکن اب اگلے دو برس کو بنیاد بنا کر شارٹ یا مڈٹرم کو بنیاد بنا کر غیر معمولی صورتحال میں کچھ بڑے غیرمعمولی فیصلے کرنے ہوں گے ۔ حکومت کو اپنی معاشی ٹیم کو ایک بڑا ٹاسک دینا ہو گا کہ وہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معاشی ریلیف دیں اور بڑے لوگوں کے مقابلے میں عام اور کمزور آدمی کی سیاسی و معاشی حیثیت کو بہتر صورت میں تبدیل کرنا ہونا چاہیے۔

اسی طرح وزیراعظم کا ایک مسئلہ اتحادی جماعتوں اور خود اپنے ارکان اسمبلی کے ساتھ بہتر تعلقات، مؤثر رابطہ کاری اور مشاورت کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام کو چلانا ہونا چاہیے۔ کیونکہ ان کو سمجھنا ہو گا کہ وہ اتحادی جماعتوں کی مدد سے ہی حکومت کر رہے ہیں اور ان کے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں کہ وہ اتحادی جماعتوں کو نظرانداز کر کے حکمرانی کر سکیں۔

وزیراعظم کو کیونکہ دوبرس کے بعد نئے انتخابات کی طرف جانا ہے تو ان کو اپنی سیاسی، قانونی اور معاشی ٹیم میں بھی کچھ بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کر کے سیاسی سمجھ بوجھ والے افراد کا چناؤ کریں جو ان کی سیاسی حکومت کو فائدہ دے سکیں۔ اسی طرح اب وقت آ گیا ہے کہ وہ پارٹی معاملات پر بھی توجہ دیں کیونکہ ان کی جماعت داخلی بحران کا شکار ہے اور جب وہ سیاسی جماعت کو مضبوط کریں گے تو اس سے ان کی حکومت کی ساکھ بھی قائم ہو گی۔

وزیراعظم کو یہ قبول کرنا ہو گا کہ ان کی حکومتی کارکردگی پر خود ان کی اپنی جماعت اور حامی لوگوں کی جانب سے بھی سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور وہ خود سمجھتے ہیں کہ حکومت وہ کچھ نہیں کر سکی جو اسے عوامی مفاد میں کرنا چاہیے تھا۔ اس لیے اب وزیراعظم باقی مدت کے اقتدار میں محض دوسروں پر الزام لگانے کی بجائے اس صورتحال کو ایک بڑے چیلنج کے طور پر قبول کریں اور اس چیلنج کا نتیجہ اچھی حکمرانی اور لوگوں کے معاشی مفاد سے جوڑ کر ہی وہ مستقبل میں اپنی ساکھ قائم کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments