بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں حادثے: وہ حفاظتی اقدامات جن سے ایسے حادثات کو کم کیا جا سکتا ہے


زہریلی گیس کے اخراج کے خطرے کے باوجود پانچ کان کن 12سو فٹ سے زیادہ گہری کوئلے کی ایک کان میں داخل ہوئے۔یہ خطرہ اس نجی ملکیت والی کان میں دو روز قبل کاربن مونو آکسائیڈ گیس کے اخراج کے باعث منڈلا رہا تھا۔

مائنز انسپیکٹوریٹ کے حکام کے مطابق چونکہ کان کن مناسب حفاظتی انتظام کے بغیر کان کے اندر گیس کے اخراج کو بند کرنے کے لیے گئے تو وہ خود اس گیس کا شکار ہو گئے۔

جب ان پانچ کان کنوں کی جانب سے کان کے باہر موجود لوگوں کو کوئی سگنل نہیں ملا تو ان کے پیچھے مزید دو کان کن اندر داخل ہوئے اور وہ بھی گیس کا شکار ہو گئے۔

یہ کہانی ہے دو حقیقی بھائیوں سمیت ان سات کان کنوں کی جو پیر کو بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں ہر روز کی طرح سینکڑوں فٹ نیچے گہری اور تاریک کان میں داخل ہوئے مگر یہ سب موت کے منہ میں چلے گئے۔

اس علاقے کے مائنز انسپیکٹر قادر مری کا کہنا ہے کہ اگر محکمہ مائنز کے حکام کو بر وقت اطلاع دی جاتی تو شاید ان کو بچایا جا سکتا تھا مگر دیر سے اطلاع ملنے پر جو ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا وہ ان کی لاشوں کو نکالنے پر ہی ختم ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

’دس میں سے صرف ایک کان کن زندہ بچ سکا‘

کوئلے کی کانوں میں حادثات کے بڑھتے واقعات

کوئلے کی اندھیری کانوں کی نذر ہونے والے مزدور

پہلے جانے والے پانچ کان کنوں کو اپنے آپ کو بچانے کا کوئی موقع نہ ملا

بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں کمیونیکیشن کا جدید انتظام تو نہیں لیکن ان میں گھنٹی کا پرانا نظام موجود ہے۔ یہ گھنٹی کان کے باہر لگی ہوتی ہے اور کان کے اندر ایک تار یا رسی سے جڑی ہوتی ہے۔ اس تار کو گہرائی سے ہلا کر اوپر پیغام بھیجا جاتا ہے۔

مائنز انسپیکٹر قادر مری نے بتایا کہ ایک خطرناک گیس کاربن مونو آکسائیڈ جسے وائٹ ڈیمپ (White Damp) بھی کہا جاتا ہے، کان میں موجود تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب پہلے پانچ کان کن کان کے اندر داخل ہوئے تو گیس کی شدت تھی اور وہاں پہنچتے ہی ان کو سنبھلنے یا اپنے آپ کو بچانے یا اوپر کوئی پیغام بھیجنے کا موقع ہی نہیں ملا ہو گا۔

انھوں نے بتایا کہ جب ان کی جانب سے کوئی پیغام نہیں ملا تو پھر مزید دو کان کن اندر داخل ہوئے اور وہ بھی پہلے پانچ کان کنوں کی طرح گیس سے ہلاک ہو گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب خطرہ کسی ایسے مقام پر ہو جہاں اپنے آپ کو بچانے کے مواقع انتہائی کم ہوں تو وہاں ان خطرات کو دور کیے بغیر کسی عام آدمی کو نہیں جانا چاہیے اور اگر کوئی جاتا ہے تو کم از کم حفاظتی انتطام کے ساتھ جائے۔

انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے جن سات کان کنوں کو نکالا گیا ان میں سے کوئی بھی حفاظتی انتظام کے ساتھ نہیں گیا تھا جس کی وجہ سے وہ فوری طور پر گیس سے بے ہوش ہوئے ہوں گے۔

کیا فوری اطلاع ملنے کی صورت میں ان کو بچانے کا امکان تھا؟

یہ واقعہ ہرنائی میں طورغر کے علاقے میں ایک نجی کان میں پیش آیا تھا۔ قادر مری نے بتایا کہ کان کنوں کے ساتھ یہ حادثہ صبح نو بجے پیش آیا تھا لیکن انھیں اس کی اطلاع سہہ پہر دو بجے دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک دشوار گزار علاقہ ہے۔ وہ اطلاع ملتے ہی اپنی ٹیم کے ساتھ روانہ ہوئے اور تین بجے جائے حادثہ پر پہنچے۔

قادر مری نے بتایا کہ کان کے اندر وینٹیلیشن کا نظام اور دیگر ممکنہ حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے بعد وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کان کنوں کو بچانے کے لیے داخل ہوئے تو انھیں بعد میں داخل ہونے والے دونوں کان کنوں کی لاشیں ملیں۔ ان میں سے ایک کی لاش تین سو فٹ گہرائی میں جبکہ دوسرے کی لاش آٹھ سو فٹ پر تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی لاشوں کو ایک سائیڈ پر رکھ باقی پانچ کان کنوں کی جانب روانہ ہوئے اور ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتے رہے کہ کان میں وینٹلیشن کا نظام بند نہ ہو کیونکہ اس سے ان کی زندگیوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ جب باقی پانچ کان کنوں تک پہنچے تو وہ بھی ہلاک ہو چکے تھے۔ قادر مری کی یہ رائے تھی کہ اگر ان کان کنوں کے پھنس جانے کے بعد فوری اطلاع دی جاتی تو شاید ان کو بچایا جا سکتا تھا۔

کان کن

ایک موقع پر تمام ریسکیو ورکرز نے بھی کلمہ پڑھ لیا

قادر مری کے مطابق جب وہ زیادہ گہرائی میں موجود کان کنوں کا پتہ لگانے جا رہے تھے تو اوپر وینٹیلیشن کے لیے لگا پنکھا بند ہو گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پنکھا بند ہونے کے بعد ان کا بھی دم گھٹنے لگا۔

’ہم سمجھے کہ ہم بھی کان کنوں کی طرح مارے جائیں گے جس پر ہم لوگوں نے کلمہ بھی پڑھ لیا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ دس منٹ بعد وینٹیلیشن کے لیے لگے پنکھے کو باہر ٹھیک کر لیا گیا جس کے باعث ہم باقی پانچ کان کنوں تک پہنچ گئے۔‘

یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک ہفتے کے دوران 14 کان کنوں کی ہلاکت

ایک ہفتے کے دوران بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں تین حادثات پیش آ چکے ہیں۔ ان واقعات کے خلاف کوئٹہ میں پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے زیر اہتمام ایک احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا۔

مظاہرے کے شرکا نے کان کنوں کی ہلاکت کے خلاف اور بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے خلاف احتجاج کیا۔

ہرنائی میں ان سات کانکنوں کی ہلاکت سے قبل دکی میں کوئلے کی کان میں بھی حادثہ پیش آیا تھا۔ پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سربراہ لالہ سلطان کے مطابق اس میں ایک کان کن ہلاک ہوا جبکہ دکی میں پیش آنے والے واقعے سے قبل کوئٹہ کے قریب مارواڑ کے علاقے میں بھی ایک کان میں حادثہ ہوا جس میں چھ کان کن مارے گئے تھے۔

لالہ سلطان کا دعویٰ ہے کہ رواں سال کے دوران بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں اب تک 60 کان کن ہلاک ہو چکے ہیں تاہم سرکاری حکام کے مطابق ان کی تعداد 20 سے زیادہ ہے۔

لالہ سلطان نے بتایا کہ گزشتہ سال بھی پاکستان بھر میں کانوں میں 205 کان کن ہلاک ہوئے تھے جن میں سے 105 کا تعلق بلوچستان سے تھا۔

بلوچستان میں کان کنوں کو بچانے کے لیے چلی جیسا معجزہ کیوں رونما نہیں ہوتا؟

اگست سنہ 2010 میں چلی کی ایک کان میں 33 کان کن پھنس گئے تھے چونکہ کان کے اندر مناسب انتظامات موجود تھے جس کے باعث نہ صرف وہ زندہ رہے بلکہ کان میں ڈرل کر کے ایک ٹیوب کے ذریعے تمام کان کنوں کو 69 روز بعد زندہ نکالا گیا۔

بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں حادثات ایک معمول ہیں اور حادثے کا شکار ہونے والے کان کنوں میں سے بہت کم ہی زندہ بچ پاتے ہیں۔

آخر بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں چلی جیسا معجزہ کیوں رونما نہیں ہوتا۔ ماہر موحولیات اور کان کنوں اور محنت کشوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی پروفیسر ڈاکٹر رابعہ ظفر سے میں نے یہ سوال پوچھا۔

ڈاکٹر رابعہ ظفر نے اس کی کئی وجوہات گنواتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں وینٹیلیشن کا مناسب انتطام نہیں۔

’اگر وینٹیلیشن کا مناسب انتظام ہو تو گیسوں کے جمع ہونے کی وجہ سے جو حادثات ہوتے ہیں انھیں روکا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ کانوں میں میتھین گیس اور کاربن مونو آکسائیڈ گیسیں ہوتی ہیں لیکن ان کی مناسب مانیٹرنگ کا نظام نہیں۔

’اگر گیسوں کی مانیٹرنگ کا مناسب انتظام ہو تو ان کی موجودگی کا پتہ لگا کر ان کو کلیئر کرنے کے بعد کان کنوں کو بھیجا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کانوں میں گیسوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز ہوتے ہیں لیکن بلوچستان کی کانوں میں ان کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے پرانے طریقوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر رابعہ ظفر کا کہنا تھا کہ اگر کان کے اندر 15 سے 20 فیصد گیس ہو تو اس سے ایک بہت بڑا دھماکہ ہو سکتا ہے۔

’یہ دھماکہ آپ کے تصور سے بھی بڑا ہو سکتا ہے یعنی اس سے پوری کان بھی بیٹھ سکتی ہے۔ کوئلے کی کانیں ہزاروں فٹ گہری ہیں۔ اگر ان میں کوئی دھماکہ ہو جائے تو ہزاروں فٹ نیچھے کان کنوں کے بچنے کے مواقع کم ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ مائنز میں کام کرنے والوں کے لیے صحت اور سلامتی کے لیے جو مجموعی پروٹوکول ہیں ان کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر رابعہ ظفر نے کہا کہ ’کان کنی پوری دنیا میں ایک خطرناک کام ہے۔ ان خطرات کو حفاظتی انتظامات کو یقینی بنا کر کم کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں ہر مائنز انسپیکٹر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کانوں میں حفاظتی انتظامات کو یقینی بنائے لیکن بلوچستان کی ہزاروں کوئلہ کانوں کے لیے ان انسپیکٹروں کی تعداد بہت کم ہے۔ ان کی تعداد صرف چھ سے سات ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ بلوچستان سے کروڑوں ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے لیکن کارکنوں کے مسائل اور مشکلات کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر رابعہ ظفر کا کہنا تھا کہ یہ سرکار اور کان مالکان دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کانوں میں حفاظتی انتظامات کو بہتر بنائیں اور کان کنوں کی سہولیات کو بہتر بنائیں۔

مزدور تنظیموں کا کیا کہنا ہے؟

بلوچستان میں مزدور تنظیمیں حکومت اور کانوں کے مالکان دونوں کو ان حادثات کا ذمہ دار ٹھراتی ہیں۔

لالا سلطان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں صحت اور سلامتی کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ ٹھیکیداری نظام ہے۔

’کان مالکان لیز اپنے نام الاٹ کرانے کے بعد زیادہ تر خود کام نہیں کرتے بلکہ وہ ان کو ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر بڑے ٹھیکیدار آگے پیٹی ٹھیکیداروں کو یہ کام دے دیتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ٹھیکیدار کو کان کنوں کا خیال نہیں ہوتا بلکہ ان کی توجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوئلہ نکالنے پر ہوتی ہے۔

’ٹھیکیداری نظام کی وجہ سے حفاظتی انتظامات کو یقینی نہیں بنایا جاتا جس کی وجہ سے مزدوروں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ٹھیکیدار با اثر لوگ ہوتے ہیں اس لیے ان کو سزا بھی نہیں ملتی ہے جب سزا کا تصور نہ ہو تو وہاں لوگ بہت زیادہ خیال نہیں رکھتے۔

کان مالکان کا کیا مؤقف ہے؟

جب مزدوروں کے الزامات کے بارے میں کانوں کے مالکان کی ایسوسی ایشن کے سربراہ بہروز ریکی سے پوچھا گیا تو انھوں نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کون اپنے گھر کو آگ لگانا چاہتا ہے۔ مزدور اور محنت کش کان مالکان کے بچوں کی طرح ہیں۔ کان مالکان کی جانب سے ان کی سیفٹی اور بہتری کے لیے جو بھی اقدامات ہو سکتے ہیں وہ کان مالکان کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ کان مالکان کے ساتھ حکومت کوئی تعاون نہیں کر رہی ہے۔ ’

ہم چاہتے ہیں کہ مائننگ کو انڈسٹری کا درجہ دیا جائے۔ انڈسٹری کا درجہ ملنے کے بعد جو سہولیات کان مالکان کو ملیں گی ان سے وہ کانوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر سکیں گے۔

بہروز ریکی نے بتایا کہ جہاں تک ٹیکس کی بات ہے تو کان مالکان سے اربوں روپے وصول تو کیے جاتے ہیں لیکن بدلے میں حکومت کی جانب سے سہولیات نہیں ملتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کانوں میں استعمال ہونے والی جو جدید مشنری ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ ٹیکس فری ہو۔ ایک مشنری کی قیمت اگر باہر ایک سو ڈالر ہے تو پاکستان میں اس کی قیمت ہزار ڈالر ہے۔ اگر یہ ٹیکس فری ہو گا تو کان مالکان ایک دانہ خریدنے کی بجائے دس بیس خرید سکتے ہیں اور اپنے کان کنوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب ہمارے کان کن حادثات سے دوچار ہوتے ہیں تو جس طرح ان کے خاندان کے افراد تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں اسی طرح کان مالکان کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں الزاات لگانے کی بجائے مسائل کے حل کی طرف جانا چاھیے۔‘

ہرنائی میں کان میں حادثے کے بعد مائنز انسپیکٹوریٹ نے کیا اقدام کیا؟

جب ہرنائی میں کان میں پیش آنے والے حادثے کے حوالے سے بلوچستان کے چیف انسپیکٹر آف مائنز شفقت فیاض سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے کان کو فوری طور پر سیل کرنے کے علاوہ کورٹ آف انکوائری قائم کر دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کورٹ آف انکوائری حادثے کے ذمہ داروں کا تعین کرے گی اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کان کنوں کے تحفظ کے لیے جتنے بھی قوانین ہیں ان پر عملدرآمد کو یقنی بنایا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp