عمران حکومت بچ گئی کیا؟



کوئی کچھ بھی کہے یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت مہنگائی اور اپنی اندرونی کمزوریوں کے مقابلے میں اگر کسی وجہ سے زیادہ پریشان تھی تو وہ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم تھا جو گذشتہ سال 20ستمبرکو عمران خان کو حکومت سے نکالنے کے نعرے پر بنا اورجب تک مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں قائم رہا اورپیپلزپارٹی سمیت سارے اتحادی اس میں سرگرم رہے حکومتی اراکین کے بیانات اورالزامات کی زبان کچھ اور تھی تاہم جیسے ہی پی ڈی ایم کے ڈھے جانے کی خبریں آئیں حکومتی جماعت کے رہنماوں اوروزرا کے چہروں پر پھیلنے والی روشنی نے ان کاسارا بھانڈا پھوڑ دیا کہ وہ اس اتحاد سے کتنے پریشان تھے۔

یہ رہنما بلکہ خود وزیراعظم عمران خان صاحب باربار کہتے رہے کہ انہیں کسی مخالف اتحاد کی کوئی پرواہ نہیں تاہم جس انداز میں تحریک انصاف نے پی ڈی ایم کے اندر سے پیپلزپارٹی کے “نکلنے “کا جشن منایا اورٹی وی سکرینز پرمٹھائیاں لے کر پہنچے اس نے لوگوں کو ساری کہانی سمجھا دی۔

اس دوران سیاسی طور پر پریشان تحریک انصاف کے پاس اس کا ایک بڑا سہارا بھی مسلسل موجود رہا جو ان کی پریشانی کو کم کرنے کا موجب بن رہا تھا اور یہ وہ سہاراتھا جسے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم نشانہ بناتا رہا تھا تاہم پی ٹی آئی کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ اپوزیشن ان کے جن “حمایتیوں ” کو نشانہ بنارہے ہیں وہ خود ہی ان سے نمٹ لیں گے اوراپوزیشن کی سیاسی چالوں کے ناکام کرنے کا انتظامی بندوبست کرلیں گے۔

دوسری جانب روزاول سے ہی غیریقینی صورتحال سے دوچارپی ڈی ایم کے اپنے اندر کے حالات اورہرکسی کے الگ الگ مفادات کی بدولت یہ اتحاد کبھی بھی خدشات اورشکایات سے مبرا نہیں رہا بات جب بھی استعفوں پرآتی تو اتحادی دبے الفاظ اورمخالف ببانگ دہل ایک ہی بات کرتے تھی کہ کوئی اوراستعفے دیتا ہے تو دیتا رہے ہاں پیپلزپارٹی کبھی استعفے نہیں دے گی۔

انہی حالات اورحکومت مخالف جدوجہد کے دوران سابق صدرآصف علی زرداری کے اس موقف کو کامیابی حاصل ہوئی کہ سینٹ الیکشن میں حکومت کے لئے میدان کھلا چھوڑنے کا خود اپوزیشن کو ہی نقصان ہوگا اورحکومت اس کا بھرپورفائدہ اٹھائے گی۔باقی کی ساری کہانی ہم روزانہ سنتے ہیں اورہر ٹی وی چینل پر اس کا ہر گھنٹے میں کئی بار تذکرہ ہوتا ہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی کے استعفے دینے سے انکار کے بعد پی ڈی ایم اتناکمزورہوگیا ہے کہ یہ حکومت کے سامنے اب کوئی چیلنج ہی نہیں رہا؟

پی ڈی ایم کے اندرمایوسی پھیلنے اورحکومت کو درپیش خطرات کم ہونے کے بعد حکومتی حامی اس وقت پوری طرح فارم میں ہیں اورکہتے ہیں کہ عمران خان حکومت کے راستے کے سارے پتے صاف ہوچکے ہیں اوراب کوئی انہیں پاکستان کو اپنے پارٹی پروگرام کے مطابق ترقی کی منزلیں طے کرنے سے نہیں روک سکتا اور وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب بھی ہیں کہ اب بظاہر کوئی بڑی رکاوٹ نہیں رہی تاہم حکومتی جماعت کو بعض دیگر معاملات پر اب بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

جن میں سب سے اہم فارن فنڈنگ کیس ہے جو پارٹی کے اپنے ہی سابق بانی رکن اکبرایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں زیرسماعت ہے جس میں پارٹی قیادت کو ایک بارپھر 22 مارچ کوپیشی کے نوٹسزجاری ہوچکے ہیں،یوں توعمران خان کی حکومت نے ڈسکہ اورسینٹ الیکشن پرالیکشن کمیشن کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اوران پرذمے داریاں پوری نہ کرنے کے الزامات عائد کرکے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اوراس کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ بھی سپریم کورٹ لے کر گئی ہے تاہم اس کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ حکومتی جماعت اس کیس کے بارے میں پریشانی کا شکار ہے۔

ماہرین کی اب تک کی موصولہ آرا کے مطابق اگر اس کیس کی سماعت میں تحریک انصاف کے خلاف غیرقانونی طور پر بیرون ممالک سے فنڈ حاصل کرنے کا عمل ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر بطور جماعت پابندی بھی لگ سکتی ہے اوریہ خود اپنے ہی ایک سابق بانی رکن کے ہاتھوں انجام کو پہنچ سکتی ہے البتہ اس معاملے پرالیکشن کمیشن کے اختیارکو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاچکا ہے اورسپریم کورٹ نے اس پر سماعت کے بعد اس کیس کو غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا ہے۔

فارن فنڈنگ کیس کے علاوہ حکومت کے سامنے دوسرا بڑا چیلنج اگرکوئی ہوسکتا ہے تو وہ مشترکہ مفادات کونسل کا آئندہ ہونے والا اجلاس ہے جس میں اگرمردم شماری کے حوالے سے مرتب شدہ رپورٹ منظورکی جاتی ہے اورکراچی کے معاملے پر ایم کیوایم کو مقامی دباو سے بچنے کے لئے حکومت سے راہیں جدا کرنی پڑتی ہیں توحکومت کے اپنے وجود کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں عددی اکثریت کے حوالے سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کو یہ بات پوری طرح معلوم ہے کہ حکومت کا اتحادی ایم کیوایم اگراسے چھوڑکرجاتا ہے توپھر حکومت کے سنبھلنے کا اورکوئی راستہ نہیں بچتا۔

3مارچ کو سینٹ کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے اندریوسف رضا گیلانی کو 19ووٹ دینے والے پارٹی اراکین کا معاملہ بھی ابھی حل ہونا باقی ہے اوراگرعمران خان دنیا میں اپنی بگڑتی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے اگر ان کے خلاف 23مارچ کے بعد کوئی ایکشن لیتے ہیں تو یہ بھی خود حکومت ہی کے ختم ہونے کا موجب بن سکتا ہے۔

تاہم دو آخری چیلنجز سے نمٹنے کا راستہ تو عمران خان کے دوست شاید نکال ہی لیں کہ میرحاصل بزنجو کے خلاف صادق سنجرانی کو جتوانے والے دوست اب بھی عمران خان کی پشت پر موجود ہیں اوربعض لوگ کہتے ہیں کہ حکومت کو بچانے کے لئے انہوں نے مسلم لیگ ن کے اندر بعض کمزورسیلز پرنظریں لگارکھی ہیں بلکہ ان کو حکومت بچانے کے لئے کردار ادا کرنے پر بھی راضی کیا جاچکا ہے۔ کوئی جتنا بھی کہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہوگا تو اس کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے حالیہ سینٹ انتخابات اورسینٹ میں اعتماد کا ووٹ سب کو یاد ہوگا کہ اس میں کیسے اکثریت والے اقلیت میں تبدیل ہوئے اوراقلیتیں اکثریت پر غالب آئیں۔

دوسوال اور بھی ہیں جو اپنی جگہ قائم ہیں کہ حکومت چھوڑ کرسڑک پرجانے والاعمران خان زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے یا حکومت کرنے والا عمران خان زیادہ بڑا مسئلہ ہے اوریہی سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ عمران خان اوراس کے حمایتیوں کے لئے پی ڈی ایم کے ساتھ استعفے دے کر سڑکوں پرجانے والازرداری زیادہ خطرناک ہوسکتا تھا یا اب کہ جب وہ پی ڈی ایم کی جانب سے معتوب ہے اورحکومت کے لئے سکھ کے سانس کا باعث بنا ہے؟ دونوں سوالوں کے جواب وقت دے گا تاہم ایک بات تو وثوق کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ اپنے دوستوں کی حمایت اوران دوستوں کی دشمن کی معلومات تک رسائی کی طاقت سے معمور عمران خان کو زیادہ بہتر سیاستدان سمجھا جارہا ہے لیکن پھر بھی یہ بات نظرانداز کرنے والی نہیں کہ جمہوریت کا انتقام کے طور پردیکھنے والا زرداری کیا کھیل کھیلنے جارہا ہے؟

پی ڈی ایم کی مریم نواز شریف کے ساتھ آخری اجلاس میں کھل کربات کرنے والے آصف زرداری کے بارے میں بعض لوگ اب بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ وہ کالا کوٹ پہن کراس کی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں کھڑے ہونے والے نوازشریف کو نہیں بھولا جس کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑگیا تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments