نالائق وزیراعظم


بڑے پاپا جب پی ایم تھے تو انہوں نے خاندانی روایت کو تقویت دی اور پندرہ سو کروڑ جمع کر رکھے تھے۔ چھوٹے پاپا جب سی ایم بنے تو خاندانی بیلنس میں 2500 کروڑ کا اضافہ ہوا تھا۔ ایم پی ایز کو بھی سو سو کروڑ کے خصوصی فنڈ دیے گئے۔ پارٹی کے لوگ اور عوام بڑے پاپا کے دور حکومت سے بھی زیادہ خوش تھے۔ چھوٹے پاپا نے پل، سٹرکیں، اوور برج اور تعمیرات کا جال بچھا دیا تھا۔ بڑے بڑے میگا پراجیکٹ مکمل کیے تھے۔ 200 ارب کے پلاٹ تقیسم کیے گئے تھے۔ ہر طرف طوطی بولتا تھا۔ اسمبلی میں ہر بل پاس ہوتا اور کابینہ ہر پالیسی منظور کرتی تھی۔ پارٹی ورکروں اور عہدے داروں کی سرکاری اداروں میں سنی جاتی تھی۔ پولیس اشاروں پر ناچتی تھی۔

اب کیا ہے۔ کابینہ کا کوئی ممبر خوش نہیں ہے۔ ایم این ایز الگ ناراض ہیں۔ ایک پائی کا فنڈ ریلیز نہیں کیا جا رہا ہے۔ اسمبلی میں کوئی بل منظور نہیں ہو رہا ہے۔ پارٹی میں انتشار ہے۔ مخالفین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ احتجاجی مارچ کی کال دے دی گئی ہے۔ مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ عوام بھوک سے مرنے لگے ہیں۔ مگر یہ نالائق وزیراعظم ملک کی سمت درست کرنے اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کے جنون میں مبتلا ہے۔

کھلاڑی ہے مگر سیاست سے اناڑی ہے۔ سلیکٹیڈ ہے۔ چنتخب ہے۔ یہودی ایجنٹ ہے۔ سیاسی وژن سے کورا ہے۔ اسے کیا معلوم سیاست کیا ہوتی ہے۔ برگر کھانے والے اور جینز پہنے والے سیاست کریں گے۔ اپنے ہی لوگوں پر نیب کے چھاپے پڑتے ہیں۔ سرکاری زمین قبضہ مافیا سے واگزار کرائی جا رہی ہے۔ یہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ باعزت اور معزز پارلیمنٹیرین کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں۔

این آر او نہیں دوں گا۔ سمجھوتا نہیں کروں گا۔ ان باتوں سے ملک چلتے ہیں۔ تین سال ہو گئے ہیں۔ اک منصوبہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ کرپشن کی ریکوری بھی کوئی خاص نہیں ہے۔ صرف دو اڑھائی سو ارب ریکور کیے ہیں۔ نیا کستان، ریاست مدینہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ کہاں ہیں ملازمتیں، گھر کہاں ہیں۔ تین سال میں بس پانچ سو گھر تعمیر ہوئے ہیں۔

نالائق وزیراعظم قابل قبول نہیں ہے۔ وزارت سے ہٹانا ہی سب کے لئے بہتر ہے۔ حد ہوتی ہے۔ جو لوگ ہمارے دروازوں کے سامنے سے گزرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ اس نے انہیں اسمبلیوں میں لا بٹھایا ہے۔ کئی تو وفاقی وزیر بن گئے ہیں۔ ٹکے ٹکے کے لوگ ٹی وی ٹاک شوز میں برابر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ یہ کسی تبدیلی ہے۔ ہر چیز کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اپوزیشن متحد ہے۔ لانگ مارچ پر سب کا اتفاق ہے۔ فاشسٹ حکومت کو گھر بھیج کر دم لیں گے۔

ایوان بالا کے انتخابات ہی دیکھ لیں۔ کہتا ہے ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے مگر خود جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ پارٹی میں کھلبلی مچی تھی۔ ایم این ایز اورایم پی ایز سنبھالے نہیں جا رہے تھے۔ آخر کار بڑے کو ہی آگے بڑھ کر معاملات سنبھالنے پڑے تھے۔ نظام کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ ایسے نہیں ہوتا ہے۔ سیاست سیکھنا پڑتی ہے۔ کرکٹ کھیلنے اور سیاست کرنے اورملک چلانے میں بہت فرق ہے۔

نظام خاک بدلنا یا درست کرنا ہے۔ نظام سے جڑے لوگ جب ساتھ نہیں دیں گے تب تک نظام بدل سکتا ہے اور نہ ملکی سمت درست ہو سکتی ہے۔ اس سے کرپشن ختم نہیں ہو سکتی ہے۔ عقل سے کام لینا ہو گا۔ مقدمات ختم کریں۔ ٹرائل بند کیا جائے۔ نیب کا ادارہ ختم کر دیا جائے بصورت دیگر استعفا دیں اور گھر جائیں۔ ہم ملک و قوم پر نالائق وزیراعظم مزید برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ عوام کی حالت دیکھ کر اب تو رونا آتا ہے۔ ہم عوام کے ساتھ اور ظلم برداشت نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments