مسئلہ یہ ہے کہ!


سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ مسئلہ کیا ہے ہر کسی کا ذاتی مسئلہ تو ایک مسئلہ ہے مگر کسی اور کا مسئلہ ایک ناٹک شاید یہی وجہ ہے کہ عوام کے کسی مسئلے کو آج تک مسئلہ سمجھا ہی نہیں گیا ملک اس وقت کورونا کی تیسری لہر کی زد میں ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہے یقیناً گزشتہ سال انہی دنوں پاکستان میں شروع ہونے والی کورونا کی پہلی لہر کی وجہ سے جنم لینے والے خوف اور غیر یقینی صورتحال نے پورا نظام زندگی معطل کر دیا خاص طور پر تجارتی سرگرمیوں کے تعطل نے عام لوگوں، سفید پوش اور دیہاڑی دار محنت کش لوگوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا مگر اس کے باوجود پاکستانی قوم نے ہمت نہیں ہاری اور ہر قسم کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر اب برطانیہ سے آنے والی کورونا کی لہر ایک نئی شدت کے ساتھ حملہ آور ہوئی ہے جس سے کورونا کیسز میں اضافے کی شرح 10 فیصد ہو چکی ہے اوسطاً روزانہ 35 سو سے چار ہزار کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اور شرح اموات بھی بڑھ گئی ہے خبر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اس سے قبل پچھلے کچھ دنوں سے وزیر اعظم کی طرف سے جاری سیاسی اور انتظامی سرگرمیوں میں کہیں بھی انہیں کورونا کی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے نہیں دیکھا گیا یہی صورتحال اسمبلی اجلاسوں کابینہ میٹنگز اور دیگر سرگرمیوں میں دیکھنے کو ملتی رہی ہے حالانکہ قیادت کو رول ماڈل ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے دعا ہے کہ اللہ‎ کریم پوری انسانیت کو اس موذی وبا سے محفوظ رکھے اور تمام بیماروں کو شفائے کاملہ عطا فرمائے۔

مگر تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن حلقوں کی جانب سے کورونا جیسے سنگین مسئلے کو مسئلہ سمجھا ہی نہیں گیا پچھلے کچھ عرصے میں اپوزیشن کی تحریک، احتجاج اور جلسوں کو سامنے رکھیں اور حکومتی اقدامات پر نظر ڈالیں تو کہیں پر بھی کورونا جیسی موذی وبا ان کی ترجیح فہرست میں دکھائی نہیں دیتی کہیں سے بھی کوئی ایسی آواز اٹھتی دکھائی نہیں دی کہ جسے سن کر یہ اطمینان کر لیا جائے کہ ہماری قیادت ہم سے غافل نہیں نہ پارلیمنٹ کے اندر اس موضوع پر بحث ہوئی نہ پارلیمنٹ کے باہر کوئی مقالمہ ہوا نہ حکومت نے مستقبل کی حکمت عملی طے کی نہ اپوزیشن نے مستقبل کی خطرے سے آگاہ کیا نہ حکومتی اقدامات میں کورونا اہم رہا نہ اپوزیشن کے احتجاج میں اس کی کوئی اہمیت رہی یعنی نہ تو حکومت کو احساس ہوا نہ اپوزیشن نے احساس کیا جس مسئلے سے نمٹنے اور اس کی ویکسین کی تیاری کے لیے پوری دنیا سر جوڑ کر بیٹھی تھی ہم نے اسے مذاق سمجھا بلکہ مذاق بنائے رکھا یہاں تک کہ اب مانگے تانگے کی ویکسین کو بھی متنازعہ بنا رکھا ہے۔

اسی طرح اپوزیشن کا اتحاد جو عوام کے نام پر تھا مگر عوام کے لیے نہیں تھا کیونکہ عوام کو در پیش مسائل کے حل کے لیے ہوتا تو آج بھی موجود ہوتا حکومت بھی موجود ہے مسائل بھی موجود ہیں مگر اپوزیشن کا اتحاد موجود نہیں کیونکہ یہ اتحاد ذاتی مفادات سے جڑا ہوا تھا تو اس لیے جڑا ہوا نہ رہ سکا جہاں مفادات بدلتے ہیں وہاں نظریات بھی بدل جاتے ہیں آج بھی سب آئین قانون اخلاقیات اور جمہوریت کی بات کر رہے ہیں مگر جمہور کی بات کوئی بھی نہیں کر رہا حیرت ہے یہ کیسے جمہوریت پسند ہیں جنہیں جمہور پسند نہیں اور یہ کیسی جمہوریت ہے جس جمہور کا کوئی ذکر نہیں عوام کا کوئی مسئلہ زیر بحث نہیں ملک میں کہنے کو جمہوریت بھی ہے پارلیمنٹ بھی موجود ہے مگر حکومت آرڈنینس سے کام چلا رہی اور اپوزیشن بیان بازی سے ساکھ بچا رہی ہے ہمیں بتایا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے پاس ایک بہترین معاشی ٹیم موجود ہے جو ملک میں معاشی انقلاب برپا کر دی گی مگر اب آئی ایم ایف کی معاشی ٹیم مہنگائی کا طوفان برپا کر رہی ہے جس تحریک انصاف نے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا عہد کیا تھا اس نے آئی ایم کو ہی پاکستان بلا لیا ہے اب حکومت تحریک انصاف کی چل رہی ہے اور پالیسیاں آئی ایم ایف کی چل رہی ہیں اور آئی ایم ایف کی انہی شرائط کے تحت حکومت دو آرڈنینس جاری کرنے جا رہی ہے جس کے تحت مختلف شعبوں میں 140 ارب کے انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم کی جا رہی ہے اور بجلی کے صارفین پر 150 ارب روپے کا سرچارج لگایا جا رہا ہے جبکہ بجلی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جا رہا ہے جو کہ تین مراحل میں ہوگا اس سے قبل حکومت تین روپے فی یونٹ اضافہ کر چکی ہے یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہو رہا ہے مگر حکومت ان تمام شرائط کو پارلیمنٹ میں لانے کے بجائے آرڈینینس سے کام چلا رہی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت کے اندر پارلیمنٹ کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں مگر اس طرح عوام کو بے خبر رکھ کر حکومت اپنی نا اہلیوں پر پردہ ڈال پائے گی؟

کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات ہوں یا بجلی کی قیمتیں ان کے براہ راست اثرات عام لوگوں پر پڑتے ہیں مہنگائی نے تو پہلے ہی عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے جبکہ انشرائط کے بعد ہونے والا اضافہ عوام کے لیے طوفان سے کم نہیں ہوگا مگر ایسا لگتا ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں حکومت خاموشی کے ساتھ عوام کو مہنگائی کی ویکسین لگا رہی ہے اور اپوزیشن محض بیانات کے ذریعے اپنی ساکھ بچا رہی ہے حالانکہ کسی بھی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپوزیشن کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر جہاں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا کردار ذاتی مفادات اور حصول اقتدار کے گرد گھومتا ہو وہاں عوام کو کسی سے بہتری کی امید رکھنا خود کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے اور عوام یہ دھوکہ ہر دور میں ہر حکومت سے اور ہر اپوزیشن سے کھاتی چلی آ رہی ہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے کورونا جیسی موذی وبا ہو یا مہنگائی کا خوفناک طوفان کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام جیتے ہیں یا جیتے جی مر جاتے ہیں کیونکہ سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ عوام کا کوئی مسئلہ ان کے لیے مسئلہ ہی نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments