مذہبی دکانداری


آج کے موضوع کی ابتدا ایک لطیفے سے کرتے ہیں۔ ایک راسخ ا لاعتقاد شخص کے والد وفات پا گئے۔ اس نے کفن دفن کے بعد کوئی خیرو خیرات یا نذرو نیاز نہیں کی۔ گاؤں کے مولوی صاحب سے یہ بات ہضم نہ ہو سکی سو وہ ایک دن اس شخص کے ہاں جا پہنچا اور کہنے لگا کہ ”بیٹا، رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ فرشتے تمہارے والد کی پگڑی اتار کر، گلے میں ڈالے ادھر سے ادھر گھسیٹ رہے ہیں۔ اب تو ایسا کر کہ یہ سفید گائے مجھے خیرات میں دیدے تو میں آپ کے والد کے حق میں کوئی دعا مانگوں تاکہ اس کی عزت بچ سکے“ وہ شخص مولوی کی نیت جان گیا اور بولا ”مولوی صاحب! بابا کی عزت بچانے کے لئے یہ گائے میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دے دوں لیکن آپ نے فرمایا کہ فرشتوں نے پہلے ہی میرے والد کی پگڑی اتار کر خوب بے عزتی کر دی ہے اس لئے اب آپ کی دعا کا کیا فائدہ؟

یہ بات شاید حقیقت بھی ہو، لیکن دین اسلام میں دینی اور دنوی معاملات میں، اب اتنی فروعات شامل ہو گئی ہیں کہ مولویوں کو ایسی بات کرنے کی اب ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کسی عزیز کی وفات کے بعد لوگ اپنی سماجی حیثیت دکھانے اور سماج میں اپنی ”ناک“ بچانے کے لئے مرحوم / مرحومہ کے نام پر سوئم، سندھیوں میں خیرات جی مانی، چالیسویں اور بارہویں کی رسم پر اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔ کہیں کہیں تو ہر سال مرحوم کی باقاعدہ برسی منائی جاتی ہے اور محفل میلاد کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ بد رسمیں ضرور ہوتی ہیں۔ چونکہ اسلام تمام مذاہب کی نسبت ایک نیا، مکمل اور فطری دین ہے لیکن جب اس پہ ملائیت کا قبضہ ہوا اور اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا تو دین فطرت کی بجائے وہ فقط رسومات کا مذہب بن کے رہ گیا۔ جیسے ایک رواں دریا میں پانی ہمیشہ تر و تازہ رہتا ہے لیکن ایک جگہ رکے ہوئے پانی میں آخرکار بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ اسلام کے کئی فرقے بن چکے ہیں بلکہ فرقوں کے بھی ذیلی فرقے بن چکے ہیں۔

فتوے بازی کے دروازے کھل چکے، آج یہ کافر، کل وہ کافر۔ اس طرح ہر فرقے کے ملا نے (گنتی کے چند علماء کے سوا) اپنے مفاد کی خاطر مذہب میں بد رسموں کی آمیزش شروع کردی۔ عام مسلمان، جو ملا کی زباں سے نکلی ہوئی ہر بات کو عین اسلام سمجھتے ہیں، ان رسموں میں الجھ کر رہ گئے۔ اب حالت یہ ہے کہ کم پڑھے لکھے مولوی اگر اپنے خطاب میں بدعت اور شرک کی حدود بھی پار کرنے لگیں تب بھی کسی مسلمان کو ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس کو روک سکے کیونکہ مسجد پہ کب سے ملائیت کا قبضہ ہو چکا۔ مسجد اب اللہ کا گھر نھیں، جس فرقے کی تختی لگی ہے اس کا ہے۔

مسجد، خلفائے راشدین کے زمانے میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتی تھی، جہاں اس وقت کے زندگی کے تمام معاملات اور حالات پر بات چیت، بحث و مباحثہ اور مشاورت ہوتی تھی۔ خلیفہ وقت سے لوگ سوال جواب کرتے تھے اور ان سے پوچھا جاتا کہ مال غنیمت میں سب کو ایک ایک چادر ملی، آپ کو دو کیسے ملیں؟ لیکن اب حاکم وقت سے تو کیا، کسی مولانا سے آپ یہ نہیں پوچھ سکتے کہ آپ نے یہ پراڈو گاڑی کیسے لے لی؟ نتیجہ یہ نکلا کہ مولوی پروموٹ ہو کر پیر بن گئےجن کا مقصد لوگوں کو جاہل رکھنا اور خرافات میں الجھائے رکھنا ہے۔

اب تو ثواب حاصل کرنے اور گناہ بخشوانے کے لئے نت نئے اور سستے طریقے ایجاد ہوچکے۔ فلاں رنگ کی پگڑی اور ٹوپی پہننے کا ثواب، پیر سے ہاتھ ملانے، ہاتھ چومنے، گلے ملنے، پاوٴں میں سجدہ کرنے کا الگ الگ ثواب۔ کرنٹ لگانے والے مولوی اور پیر میدان میں آ گئے، لوگوں کو کورس کے انداز میں نچانے والے اور پلاسٹک کے پائپ سے عورتوں کو نہلا کے، ان کے گناہ دھونے کی دعویٰ کرنے والے۔ انہوں نے جنت کی چابیاں دینے کی دکانیں کھول رکھی ہیں!

یہ سارا کھیل سادہ دل عوام سے پیسے بٹورنے اور کم عقل عورتوں کو کسی نہ کسی بہانے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کا ہے۔ یہ ہی وہ طبقہ ہے جو ہر نئی سائنسی ایجاد اور جدید چیزوں کی شروع شروع میں بڑی مخالفت کرتا ہے مگر ضرورت کے وقت انہیں اپنا بھی لیتا ہے۔ سائنس کی ہر فیلڈ اور سائنسی سوچ کے خلاف یہ طبقہ نہ صرف مسلسل اعلان کرتا رہتا ہے بلکہ کفر کے فتوے بھی صادر کرتا رہتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کے استعمال میں آنے والی چیزیں بھی اسلامی اور غیر اسلامی ہوتی ہیں؟ اس ملک میں تو ہوتی ہیں، مثلاً ماضی میں گھر یا دکان میں تصویر کا رکھنا، فوٹو کھنچوانا، انگلش کٹ بال بنوانا، انگریزی پڑھنا، پینٹ شرٹ پہننا، لاؤڈ اسپیکر اور ٹی وی وغیرہ سب غیر اسلامی، حرام بلکہ باعث گناہ چیزیں تھیں۔ جماعت اسلامی کے مجاہدوں نے تو ٹی وی کی دکانوں تک کو جلا دیا تھا۔ آج کل پولیو ڈراپس اور کورونا ویکسین پہ فتوے لگ چکے۔

کئی پولیو ورکرز، ان جاہل ملاؤں کے فتوے کے نتیجے میں قتل ہو چکیں۔ اب شہد بھی ”اسلامی شہد“ ہو چکا۔ دکانوں کے نام مکی / مدنی، مسلمان بھائی کے بجائی ایک ٹی وی چینل ”مدنی“ بھی کھلا ہوا ہے، جب کہ ٹی وی دیکھنا حرام ٹھہرا! یو ٹیوب پہ ایک باپردہ خاتون ”اسلامی مباشرت“ کے وہ گر بتاتی ہیں کہ کسی انگریزی فلم دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔

قبلہ شیخ معراج ربانی اورایک ریاستی مولوی، اپنے بیان میں جنت کی ستر حوروں کے لباس، جسمانی خدوخال، ان کے حسن اور ان سے صحبت کرنے کی لمبی ٹائمنگ اور اوپر سے دوسری حور کا آجانا، کی ایسی زبرست منظرنگاری بیان کرتے ہیں کہ اسے سنتے ہی لوگوں کو خیزش ہونے لگتی ہے! ایک اور مولانا، ایک عورت کے اس سوال کہ ”جنت میں عورتوں کو کیا ملے گا؟ کے جواب میں، مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں“ آپ کو وہی پرانا شوھر ملے گا مگر رپیئر ہو کر، آپ کو بہت اچھا لگے گا۔ جتنا ٹیڑھا میڑھا ہوگا سب ٹھیک ہو جائے گا ”کیا مطلب؟ مطلب صاف ہے کہ پہلے تمام جنتی مردوں کی مردانہ کمزوری اور ان کے ناکارہ اوزار کا علاج کیا جائے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو جنت دوزخ کے ماحول اور اس میں ہونے والے اس طرح کے کام کا پتہ کہاں سے لگتا ہے؟ مولانا مینگل اپنے ایک درس میں لوگوں کو پیغمبروں کی دراز عمری کا راز بتا رہے ہیں، قرآن پاک ان کے سامنے کھلا ہوا ہے۔ بات کرتے کرتے وہ عورتوں کی ہم جنس پرستی، مردوں کے جنسی جذبات، مشت زنی اور مردانہ کمزوری پہ کھلم کھلا فحش کلامی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کو قرآن شریف کے تقدس کا بھی احترام نہیں۔

ایسے کئی نام نہاد ملاوٴں نے مردوں میں جنسی ہیجان کو بری طرح بھڑکایا ہے جس کی وجہ سے زندگی کی ہر فیلڈ میں تو کیا، مقدس مقامات میں بھی ملک کی بچیاں، بچے اور عورتیں محفوظ نہیں۔ ان لوگوں کے لئے کوئی قانون، کوئی ایجنسی نہیں! اور پھر یہ لوگ ہر برائی کی جڑ عورت کو ٹھہراتے ہیں۔ عورت کے وجود کا تصور کرتے ہی ان کے ذہن میں صرف فحاشی امنڈ آتی ہے۔

ایک مولوی لوگوں کو توبہ کے غلط تصور کے بنیاد پہ مزید گناہ کرنے کی ترغیب کچھ اس طرح سے دیتے ہیں۔ ”میرے بھایو! تم چاہے کتنے بھی گناہ کر ڈالو، اتنے زیادہ کہ آسمان کو چھونے لگیں لیکن آخر میں ایک دفعہ توبہ کر لو تو اللہ تم کو معاف کر دیگا“

جب نبی کریم ﷺ اپنی پیاری بیٹی اور خاتون جنت کو یہ فرماتے ہیں کہ ”قیامت کے دن کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا کہ میں نبی کی بیٹی ہوں۔ آپ کو اپنے اعمال کام آئیں گے“ تو پھر بات ختم۔

پاکستان میں گنتی کے جو چند علماء تھے یا ابھی ہیں، جنہوں نے ریسرچ کی، سیکڑوں کتابیں لکھیں، اسلامی ادارے قائم کیے اور اسلام کا حقیقی پیغام مسلمانوں تک پہنچانے کی سعی کی، اس دکاندار ٹولے نے ان پہ کفر کے فتوے لگا کر ان کو واجب القتل قرار دیا۔ علامہ غلام احمد پرویز اور علامہ جاوید احمد غامدی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ غامدی صاحب تو ملک چھوڑنے پہ مجبور ہو گئے۔ پچھلے دنوں مشہور عالم دین انجنیئر محمد علی مرزا پہ قاتلانہ حملہ ہوا ہے لیکن اللہ کے فضل سے وہ بال بال بچ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments