ملتان کا آم ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام


آموں کے حوالے سے ایک کہاوت سن رکھی ہے کہ آم پالنا اور بیٹا پالنا ایک برابر ہے۔ بیٹوں کے حوالے سے راقم کا ذاتی تجربہ نہیں لیکن آموں کے حوالے سے ذاتی مشاہدہ ضرور ہے۔ کوئی بیس سال ہوتے ہیں جب ہماری خاندانی زمینوں پر روایتی فصلوں کی بجائے آم کے باغ لگانے کا فیصلہ ہوا۔

خیال تھا کہ بہاولنگر کی زمین اور موسم ملتان سے ملتے جلتے ہیں، اس لیے آم کی پیداوار کے لئے موزوں رہیں گے۔ وسیع پیمانے پر باغ لگایا گیا، مالی سندھ سے لائے گئے، آم کی بہترین کوالٹی حاصل کی گئی، چونسہ اور انور رٹول وغیرہ کی پلاننگ کی گئی اور اچھے خاصے وسائل اس میں جھونکے گئے۔

آم کے پودے کی ایک خاص عمر تک سردی اور کہرے سے حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ اس کو اوپر سے ڈھانپ کر رکھا جاتا ہے ورنہ کہرا اس پودے کو جلا دیتا ہے۔ جب مطلوبہ قد کاٹھ تک آم کے پودے پہنچے تو حفاظتی چھت اتار دی گئی لیکن اس سال معمول سے زیادہ سردی پڑ جانے کی وجہ سے سیکڑوں درخت جل گئے اور ایک اچھی خاصی سرمایہ کاری ضائع ہو گئی۔

خیر بہت سے تجربات ہوئے اور ہم آم کی بجائے کنو کا باغ لگانے میں کامیاب رہے۔ یہ بات واضح ہو گئی کہ ملتان، شجاع آباد، رحیم یارخان اور سندھ کی زمینیں آم کے باغات کے لئے قدرت کا تحفہ ہیں۔ وہ چونسہ جو میں نے اپنے ایک جرمن دوست اور اس کی بیوی کو تحفے میں دیے تو اس کی بیوی نے پوچھا تھا کہ یہ شہد میں ڈبوئے ہوئے تھے؟ کوئی شک نہیں کہ چونسہ اور انور رٹول جیسے خوش ذائقہ اور میٹھے پھل اور کہاں اگتے ہیں، انہی ملتان، شجاع آباد، لودھراں اور مظفر گڑھ کی زمینوں پر اور یہی آم دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ہیں۔

کچھ سال پہلے بھی ہاؤسنگ کالونیاں بنانے کے لئے ملتان میں درخت کاٹنے کی روح فرسا خبر سنی تھی۔ پچھلے سات برسوں میں چھ ہزار ایکڑ کے قریب آم کے باغات کاٹے جا چکے ہیں۔ اب چند دنوں سے ویڈیوز اور خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ ایک معروف ہاؤسنگ سوسائٹی کے لئے آم کے نوے ہزار درخت کاٹے جا رہے ہیں۔

دنیا بھر میں زرعی رقبے کو کمرشل یا رہائشی علاقے میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں چہ جائیکہ اس قدر قیمتی فصل جو کئی سال میں تیار ہوتی ہو اور جس کے لئے دستیاب زمین پہلے ہی بہت نایاب ہو۔ جس کا پھل نہ صرف ملک بھر میں ذوق و شوق سے کھایا جاتا ہو بلکہ زرمبادلہ کا بھی ایک ذریعہ ہو اس کے باغات کو بے رحمی سے اجاڑا جا رہا ہو۔

ملک ریاض نے کراچی جس جگہ پر بحریہ ٹاؤن آباد کیا ہے وہ سنگلاخ اور بے آباد جگہ تھی۔ اس نے یقیناً کم قیمت پر زمین حاصل کی ہو گی، پیسہ لگایا ہو گا، زور زبردستی کی ہو گی لیکن بالکل اجاڑ بیابان کو اس نے گل و گلزار میں تبدیل کر دیا پھر بھی عدالت نے اس کے خلاف نوٹس بھی لیا اور اسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ بھی کیا، غیرقانونی زمین کی خریداری بند بھی کی گئی۔ اب کسی عدالت کو یہ توفیق ملے گی ملتان میں اس ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف کوئی ایکشن لے جو گل و گلزار زمینوں کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کرنے جا رہی ہے؟

انڈیا اپنے آم الفانسو کو (جو بغیر کسی تعصب کے ) پاکستانی آم سے کم تر درجے کا ہے، بہتر حکمت عملی سے دنیا بھر میں برینڈ بنا چکا ہے۔ لیکن ہم جس ڈگر پر چل نکلے ہیں لگتا ہے، صرف ہاؤسنگ کالونیاں ہی بنائیں گے اور باقی چیزوں کی طرح کھانے کی چیزیں امپورٹ کر لیا کریں گے۔ امپورٹ کے لئے پیسہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو انہی کالونیوں میں انویسٹمنٹ کی ترغیب دے دے کر پورا کر لیا کریں گے۔ پانی کی کمی کا رونا اور ڈیموں کے خرچے بھی بچیں گے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکوں کی پلاننگ تو کمال ہے۔ قومی پھل کا کیا ہے، صبر کے پھل کو قومی پھل بنایا جا سکتا ہے، ثواب کا ثواب اور بچت کی بچت۔

ویسے بھی گدھوں کا آم سے کیا واسطہ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments