بھارتی حصار اور کمزور پاکستانی خارجہ پالیسی


خارجہ امور میں ایسی کوئی پیشرفت جو بین الاقوامی سطح پر رونما ہو رہی ہو اور اس سے کسی بھی واسطے سے وطن عزیز متعلق ہو تو اس سے غیر متعلق نہیں رہا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی اور حسینہ واجد نے اگرتلہ جو بھارتی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت ہے، سے ایک پل کا جو ایک اعشاریہ نو کلومیٹر پر محیط ہے، مشترکہ طور پر ورچوئل تقریب میں افتتاح کیا کہ جس کو انڈیا بنگلہ دیش دوستی پل کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے۔

ان دونوں ممالک کو حق حاصل ہے کہ وہ ایک دوسرے سے مفادات حاصل کریں۔ ایسا کرنے کی صورت میں کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن پریشانی اس وقت منصہ شہود پر آ جاتی ہے کہ جب اس تقریب میں بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے 1971 کے واقعات کا ذکر کرتی ہے اور اس میں بھارتی قیادت کے کردار کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کرتی ہے کہ ہم آپ کے بغیر اپنی ”جنگ آزادی“ میں فاتح نہیں ہو سکتے تھے، تو ایسی گفتگو کسی شبہ کے بغیر پاکستانیوں کو چونکنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ یہ صرف بھارت کی اپنے معاشی اہداف کی طرف ایک پیش رفت نہیں ہے بلکہ اس کے اسٹرٹیجک مقاصد بھی موجود ہیں ورنہ حسینہ واجد کو ایسی گفتگو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ جس میں پاکستان کا ذکر ہو۔

بھارت اس علاقے میں ریل کے منصوبوں کے ذریعے پہلے ہی خاصا متحرک ہے اور اب یہ دوستی پل تو اگرتلہ کو بنگلہ دیش کی بندرگاہ چٹوگرام سے سو کلومیٹر سے بھی کم فاصلہ کر دے گی۔ اسی لیے حسینہ واجد نے اس پل کو شمال مشرقی بھارت کی رگ حیات قرار دیا ہے۔ اس سے قبل اگرتلہ سے جو قریب ترین بندرگاہ موجود تھی وہ کلکتہ کی بندرگاہ ہے کہ جس کا فاصلہ سولہ سو کلومیٹر ہے۔ بنگلہ بنگلہ دیش اس بندرگاہ کے ساتھ ساتھ مونگا کی بندرگاہ سے بھی بھارت کو آمدورفت کی اجازت دے چکا ہے۔

ان اقدامات سے صرف تری پورہ ہی مستفید نہیں ہو گا بلکہ جنوبی آسام میزو رام اور منی پور بھی منسلک ہو جائیں گے۔ خیال رہے کہ انڈیا کی یہ شمال مشرقی ریاستیں لینڈ لاک ہیں۔ بنگلہ دیش سہولت دے کر بھارت کے ذریعے جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان تجارتی گزرگاہ بننا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ بھارت کے سکیورٹی مفادات بھی پورے کرنے کے لیے تیار ہے۔ بھارت کولمبو پورٹ سری لنکا پر بھی اپنی اجارہ داری اسی سبب سے قائم کرنا چاہتا ہے۔

میں تجارتی معاملات سے زیادہ سکیورٹی امور کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ ابھی گزشتہ برس کے آخر میں ہی امریکہ انڈیا نے خلیج بنگال میں بحری مشقیں کی تھیں کہ جن کو چین کو پیغام دینے کے لیے ادھر ترتیب دیا گیا تھا۔ یہ مشق چاہے کسی پرانے معاہدے کے تحت ہی ہو مگر ان کے اس وقت اس جگہ پر انعقاد کا مقصد ایک واضح پیغام دینا تھا اور ابھی اس کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ امریکہ نے ایک ورچوئل کانفرنس منعقد کروا دی کہ جس میں امریکہ جاپان آسٹریلیا اور بھارت کے سربراہان نے شرکت کی۔

کانفرنس کا مقصد انڈو پیسفک کو اپنے مطابق ڈھالنا تھا اور اس کے لئے free open and inclusive کی اصطلاحات استعمال کی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ نیٹو کے ایشیائی ورژن کی تشکیل کی طرف قدم ہے اور اس کا ہدف چین ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ اس ورچوئل کانفرنس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں خاص طور پر ساؤتھ چائنا سی کا ذکر کیا گیا جب کہ چین کے وزیر خارجہ نے بہت محتاط گفتگو کی ہے اور کہا ہے کہ چین اور آسیان ممالک کو جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے پر اختلافات پر قابو پانا چاہیے، مشاورتی عمل کو آگے بڑھانا چاہیے، جنوبی بحیرہ چین میں تمام فریقین کے درمیان طے پانے والے اعلامیے پر عمل کرنا چاہیے، باہمی اعتماد و تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے، اور جنوبی بحیرہ چین کے استحکام کا مشترکہ طور پر تحفظ کرنا چاہیے۔

بہرحال انڈو پیسیفک کے پانیوں میں بھارت کی غیر معمولی اہمیت پاکستان کے لئے کیا معنی رکھتی ہے بالکل واضح ہے۔ اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ امریکی نئی حکومت نے افغانستان کے حوالے سے اپنی ترجیحات کو واضح کرنے کے لئے امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو ایک خط تحریر کیا ہے کہ جس میں انہوں نے افغانستان میں بھارتی کردار کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے کہ یہ کردار ضرور موجود ہوگا۔ بھارت کا کردار ہونے کا معنی یہ ہے کہ ایک طرف تو پاکستان انڈو پیسفک میں اس کے سکیورٹی کردار کے حصار میں چلا جائے گا اور دوسری جانب افغانستان سے ماضی میں جو حرکتیں ہوتی رہی ہے اس میں بھارت کا مزید کردار بڑھ جائے گا۔

صدر بائیڈن نے اپنے حلف کے بعد مودی کو جو فون کال کی ہے اس میں بھی بھارت کے مزید بڑھتے کردار کی بو آتی ہے۔ صورت حال ایسی ہے کہ دو برادر مسلمان ممالک بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم بھارت سے اس کی خواہشات پر معاملات طے کر لیں جب کہ وطن عزیز کی اس وقت سفارتی طور پر کمزوری اتنی ہے کہ امریکی صدر نے اب تک پاکستان میں کسی سے فون پر بات تک نہیں کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے آرمی چیف کو فون کیا تھا کہ جس سے اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا پاکستان میں جمہوریت کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے کے علاوہ کم و بیش دو برس سے امریکہ نے اسلام آباد میں اپنا باقاعدہ سفیر ہی مقرر نہیں کیا ہے اور نہ ہی اگلے چند ماہ میں اس کا امکان موجود ہے۔

پھر واشنگٹن میں ہمارے سفارت خانے کی بھی نئی انتظامیہ سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ یہ کیفیت کوئی اچانک قائم نہیں ہو گئی ہے بلکہ پے در پے غلطیاں اس سطح تک ہمیں لے آئی ہے جب دنیا بار بار کی غلطیاں دیکھتی ہے تو وہ غلطی کرنے والوں کو سنجیدہ لینا ترک کر دیتی ہے لیکن ہمیں حالات کو سنجیدہ لینا چاہیے کیونکہ بھارت انڈو پیسفک سے لے کر افغانستان تک اپنی بالادستی قائم کرنے کی طرف بہت رفتار سے پیش قدمی کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments