کورونا سے نئے معاہدات


پاکستان کے ایک طاقتور ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے کورونا کو قابو میں کرنے کے لئے کورونا سے کامیاب مذاکرات کے بعد ایک تحریری معاہدہ کیا ہے جس سے اس بات کی امید ہو چلی ہے کہ پاکستان میں اگر کورونا کو ختم نہ بھی کیا جا سکا تب بھی اتنا ضرور ہو سکے گا کہ اس کے پھیلاؤ میں ہوش اڑا دینے جیسا اضافہ نہیں ہو سکے گا جس کے تحت روزانہ 50 سے زائد افراد سفر آخرت کی جانب روانہ نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی 4000 افراد سے زیادہ متاثر ہو سکیں گے۔

معاہدے میں طے پایا ہے کہ

1۔ جہاں بھی کورونا کیسز کی شرح 8 فیصد سے تجاوز کرے گی ، وہاں کاروبار ہفتے میں صرف 5 دن کھلے گا اور تمام کاروباری سرگرمیاں رات 8 بجے بند کر دی جائیں گی۔ اگر حکومت کامیابی کے ساتھ ہفتے میں دو دن چھٹی کرانے اور کاروبار کے ٹھیک 8 بجے بند ہو جانے کے معاہدے کی پاسداری کرے گی تو کورونا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس علاقے کے متاثرین کی اوسط 8 فیصد سے کبھی زیادہ نہیں ہونے دے گا لیکن اگر حکومت معاہدے کے مطابق عمل درآمد کرانے میں کامیاب نہ ہو سکی تو ہم بغاوت برپا کر دیں گے لہٰذا این سی او سی کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اہل علاقہ نہ صرف اوقات کار کا خیال رکھیں بلکہ کاروبار کو ہفتے میں 2 دن بند بھی رکھیں۔

2۔ کورونا بے شک انسانوں کے لئے تباہی و بربادی کے اسباب لے کر آیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود یہ چنگیز و ہلاکو جیسا نہیں کہ لوگوں کے جینے کے بنیادی حقوق تک سلب کر لے۔ لہٰذا کسی علاقے میں کرفیو جیسی صورت حال ہی کیوں نہ پیدا ہو جائے، بنیادی ضرورتوں کی ساری دکانیں کھلی رکھی جا سکتی ہیں جس میں دودھ دہی کی دکانیں، ہسپتال، کریانہ اسٹورز وغیرہ شامل ہیں۔

3۔ یہ طے پایا ہے کہ اب سارے بند شادی حال، بند ہوٹلز اور ہر ایسی جگہ جو چار دیواری کے ساتھ چھت بھی رکھتی ہو، ان میں کسی بھی قسم کی کوئی تقریب خلاف معاہدہ ہو گی اور ایسی صورت میں کورونا کسی بھی رعایت کا پابند نہیں ہو گا لہٰذا این سی او سی نے ہدایات جاری کی ہیں کہ پورے ملک میں اب کوئی تقریب بھی چھتوں کے نیچے منعقد نہیں کی جائے گی جس میں شادی ہال، ریسٹورانٹ اور شام کے اوقات میں چٹور پن کے لئے کھولے جانے والے مراکز شامل ہیں۔

کھلے مقامات پر بیٹھ کر، ابلے ہوئے گٹروں کے تازہ تازہ پانی میں کرسیاں میزیں لگا کر یا گندگی کے خشک ہو جانے کے بعد آنے جانے والی گاڑیوں کی وہی غلیظ مٹی اڑ اڑ کر کھانے پر برستے دیکھنے کے باوجود ہر فرد کو ایسی بارہ مصالحے دار اشیاء کھانے پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ کورونا کا کہنا ہے کہ کیونکہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر بیٹھے افراد از خود ”آ بیل مجھے مار“ کر رہے ہوں تو مجھے ان پر حملہ آور ہونے کا ایسا کوئی خاص شوق بھی نہیں البتہ صاف اور پاکیزہ ماحول سے مجھے ازلی دشمنی ہے لہٰذا بہتر ہے کہ کسی صاف ستھری جگہ کھانے پینے سے جس حد تک بھی ہو دور رہا جائے۔

4۔ شادی بیاہ یا دیگر تقریبات کھلے مقامات پر منعقد کی جائے لیکن یاد رہے کہ یہاں بھی افراد کی تعداد 300 سے زیادہ کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ لہٰذا یہ طے پایا ہے کہ اگر افراد کی تعداد 300 سے ایک بھی اوپر ہو گئی تو ہم (کورونا وائرس) کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں کریں گے۔ پورے ملک کے چپے چپے پر ہماری چھاپہ مار ٹیمیں اس بات کا سختی سے جائزہ لینے کے لئے تشکیل کر دی گئی ہیں لہٰذا معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں نتائج کی ذمہ داری این سی او سی پر عائد ہو گی۔

5۔ ایسی آبادیاں جہاں ہماری تباہ کاریاں 8 فیصد سے زیادہ ہوں گی وہاں یہ طے پایا ہے کہ ہر قسم کی نقل و حرکت اور نقل و حمل پر بھی پابندیاں ہوں گی ۔ معاہدے کی خلاف ورزی پر ہمارا (کورونا کا) شدید رد عمل سامنے آ سکتا ہے۔

6۔ ہم (کورونا) نے کھلے مقامات پر صرف 300 افراد کی شرط کے ساتھ، تقریبات کی بے شک اجازت دی ہے لیکن ایک کڑی شرط یہ رکھی ہے کہ ایسی تقریبات بھی 2 گھنٹوں کے اندر اندر شروع ہو کر ختم کر دی جائیں، آمد ٹھیک 9 بجے رات شروع ہو اور ”جامد“ ٹھیک 10 بجے مکمل ہو جائے بصورت دیگر ہم (کورونا) سے کوئی شکایت نہ کرے۔

7۔ ہر قسم کے دفاتر میں حاضری 50 فیصد سے زائد نہ ہو، ریل کے سفر میں 70 فیصد سے زیادہ مسافر سفر نہ کریں اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی 50 فیصد سے زیادہ مسافروں کو نہ بٹھائے۔

میں حیران ہوں کہ ایک نظر نہ آنے والی مخلوق نے دوسری بالکل بھی دکھائی نہ دینے والی مخلوق کے ساتھ کیسا معاہدہ ہے۔ کاروبار کو 8 بجے رات کو بند کر دینا، کھلے ماحول میں تقریبات کی بھی صرف 2 گھنٹوں کے لئے اجازت دینا، دفاتر میں وائرس کا 50 فیصد حاضری پر کچھ نہ کہنا اور رات دس بجے کے بعد محافل کو محافل سماع بنا دینا جیسے معاہدے کم از کم مجھ ناقص العقل کی سمجھ سے ماوراء ہیں۔ جو بازار رات آٹھ بجے تک اور ہفتے میں 5 دنوں تک کھلے رہنے پر کورونا سے محفوظ رہ سکتے ہیں ، وہ مزید دو چار گھنٹے کیسے عدم تحفظ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جو کھلی تقریبات 2 گھنٹوں تک شرکاء کے لئے کسی بھی قسم کے خطرے سے پاک رہ سکتی ہیں وہ ان ہی تمام شرائط کے ساتھ 24 گھنٹے کیوں خطرے کا سبب بن سکتی ہیں۔

لاک ڈاؤن لاک ڈاؤن ہوتا ہے۔ یا تو وہ مکمل ہو یا نہیں۔ یہ پس چلمن بیٹھ جانے والی ایسی بات نہیں ہونا چاہیے جس میں سامنے آنے سے گریز بھی ہو اور جلوہ گری کی ادائیں بھی۔ اس لئے این سی او سی ہو یا حکومت، دونوں کو ایک سنجیدہ مسئلہ چوں چوں کا مربہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments