پاکستان کس قسم کا زرعی ملک ہے؟


حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان سولہ آنے ایک زرعی ملک ہے۔ دوسری تیسری کی معاشرتی علوم کی کتاب میں بھی یہی پڑھا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اب بچے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کس قسم کا زرعی ملک ہے، جہاں کبھی گندم تو کبھی چینی، کبھی ٹماٹر تو کبھی پیاز درآمد کرنے کی زحمت آئے دن اٹھانی پڑتی ہے؟ اب بچوں کو کیا بتائیں کہ پاکستان کب زرعی ملک بنا اور کس قسم کا زرعی ملک ہے؟ جہاں کبھی گندم تو کبھی چینی اور دیگر اشیائے صرف کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔

روز روز کہ ایسے بے تکے سوالوں سے بچنے کے لیے ایک دن بچوں کو لے کر بیٹھے اور بتایا کہ قائد اعظم ایک جمہوریت پسند رہنما تھے۔ وہ بر صغیر میں ایک ایسی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے متمنی تھے، جو خطے کے دیگر ممالک اور خصوصی طور پر ان مسلمانوں کے لیے جنہوں نے برکات ہجرت پاکستان سے منہ موڑا، ایک مثال ہو۔ چونکہ قائد اعظم کو قیام پاکستان کی منزل پا لینے کے بعد عوام کی خواہشوں اور امنگوں کا بخوبی ادراک ہو گیا تھا۔ اس لیے قائد اعظم نے جمہوریت پسندی کی روشن مثال قائم کرتے ہوئے، پاکستان کے مشرقی بازو ( موجودہ بنگلہ دیش ) ڈھاکہ کے ریس کورس گراؤنڈ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، واشگاف انداز و الفاظ میں اعلان کیا ’اردو ہماری سرکاری زبان ہوگی۔‘

مشرقی بازو کے عاقبت نا اندیش عوام نے قائد اعظم کے اس جمہوری اعلان و اقدام کا برا منایا۔ اور لگے کرنے اردو کے خلاف احتجاجی سیاست۔ احتجاج تو خیر ریاستی اداروں کے اہل کاروں نے کچھ بندے ادھر ادھر کرنے سے وقتی طور پر ختم کر دیا۔ اور پھر قائد اعظم کو بھی زندگی نے مہلت نہ دی کہ پاکستان کو ایک ایسی جمہوری و فلاحی ریاست بناتے، جس کے مغربی و مشرقی بازو کی سرکاری و قومی زبان اردو ہوتی۔

بچوں کو یہ بھی بتانا پڑا کہ 26 جنوری 1952 میں دستور ساز اسمبلی نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کی حتمی منظوری دی تو مشرقی بازو کے عوام سراپا احتجاج بن گئے اور 21 فروری کو حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا۔ احتجاج کو دبانے اور ختم کرنے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال ہوا۔ جس کی وجہ سے مشرقی بازو کے کچھ شہری جان سے بھی گئے۔ مشرقی بازو کے عوام نے اس سانحے کے بعد 21 فروری کو یوم شہداء منانا شروع کر دیا اور 1999 میں دو بنگلہ دیشی شہریوں کی درخواست پر یونیسکو نے 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دے دیا۔ جو اب پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔

بچوں کی سوالیہ نظریں ابھی تک ہمیں تک رہی تھیں، اس لے مزید بتانا پڑا کہ دو تین سال معاملات یونہی چلتے رہے کہ جنوری 1951 میں محکمہ زراعت میں انتہائی سرعت کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ نئے سربراہ کا ماننا تھا کہ پاکستان اسی وقت ایک جمہوری و فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ جب پہلے وطن عزیز ایک زرعی ملک بنے۔ سو وہ اسی کام میں جت گئے۔ اور ذاتی اثر و رسوخ اور خواہش پر کابینہ میں شمولیت بھی اختیار کر لی۔ اور بالآخر 1958 کے اواخر میں با ضابطہ طور پر پاکستان کو ایک زرعی ملک بنانے کا بذات خود انہوں نے اعلان کیا۔ جس کا مشرقی بازو کے عوام نے سب سے زیادہ برا منایا، چونکہ وہ جمہوریت کی راہ تک رہے تھے کہ کب پاکستان ایک حقیقی جمہوری و فلاحی ریاست بن سکے۔

اس حوالے سے بچوں کو مزید تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے، یہ بھی بتایا کہ جب پاکستان 1958 میں ایک زرعی ملک بن گیا، تو 1959 میں ’یوم جمہوریہ‘ کی تعطیل کا نام بھی تبدیل کرنا پڑا، جو اب ’یوم پاکستان‘ کہلاتا ہے۔ بچوں کی دل چسپی کو پیش نظر رکھتے ہوئے، یہ بھی بتایا کہ جب پاکستان زرعی ملک کی ڈگر پر چل پڑا تو سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ اور بھارت کو دو چار دریاؤں کا کنٹرول دے دیا گیا۔ چونکہ پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے ان دریاؤں کا پانی ضرورت سے زائد تھا۔

جب وطن عزیز مکمل طور پر زرعی ملک بن گیا، تو عوام نے جمہوریت کا مطالبہ کیا۔ جنرل الیکشن کا انعقاد ہوا۔ لیکن نتائج جنرل صاحب کی توقعات کے خلاف آئے۔ جنرل صاحب کو اکثریتی جماعت کو اقتدار حوالے کرنے میں تامل تھا۔ جس سے مشرقی پاکستان کے عوام میں بے چینی پھیلی گئی۔ جس کو 1971 میں محکمہ زراعت کے فنی و جنگی تعاون سے دور کر دیا گیا۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد وطن عزیز میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے قوم کو 1973 کا متفقہ آئین دیا۔ لیکن آئین پاکستان سے محمکہ زراعت کو شدید قسم کے تحفظات تھے، جو ہنوز برقرار ہیں۔ پھر بھی وزیر اعظم نے قبل از وقت عام انتخابات کا اعلان کیا۔ انتخابات ہوئے، لیکن متحدہ اپوزیشن ( پاکستان قومی اتحاد ) نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان قومی اتحاد نے دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ پی این اے میں تحریک استقلال، عوامی نیشنل پارٹی اور پگاڑا لیگ جیسی سرکردہ اسلامی جماعتیں بھی شامل تھیں۔

ان جماعتوں نے انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک کو ’تحریک نظام مصطفی‘ میں تبدیل کر دیا۔ اور مرحوم اصغر خان نے تو سربراہ محکمہ زراعت سے بذریعہ خط براہ راست مداخلت کی اپیل کر دی۔ جس کو انہوں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ اور لگ گئے نظام مصطفی قائم کرنے۔ پی این اے نے احتساب کی بھی بات کی۔ نظام مصطفی تو پی این اے کی جماعتوں کی کابینہ میں شمولیت کے بعد بھی قائم نہ ہو سکا۔ حالانکہ قوم کو اس راہ میں ایک منتخب وزیر اعظم کی قربانی بھی دینی پڑی۔

بس جب سے لولی لنگڑی جمہوریت تو کبھی مارشل لا قوم کے نصیب میں آتے رہے۔ اور سیاست کے میدان کے کھلاڑی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہے۔ جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایسی صورت حال میں محکمہ زراعت کی من مانیاں اپنے عروج پر ہیں۔ اور محکمہ زراعت آبادیوں کے جنگلات بسانے میں لگی ہوا ہے۔ چاہے اس کے لیے پھل دار درختوں کا قتل عام ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ تمام روداد سننے کے بعد بچوں کی سمجھ میں کچھ کچھ آ گیا کہ وطن عزیز کس قسم کا زرعی ملک ہے، جس میں اجناس اور دیگر اشیائے صرف کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن کچھ سیاسی جماعتیں اور کچھ سیاسی قائد یہ حقیقت سمجھنے سے اب تک قاصر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments