عدالتی فیصلے اور بلوچستان حکومت


بڑی تعداد میں فیصلوں کے باوجود کل صوبائی کابینہ نے 184 نئی اسکیمات منظور کر لیں جن کو سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹریز ڈویلپمنٹ عبدالرحمن بزدار اور صبور کاکڑ نے شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایڈووکیٹ جنرل صاحب بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے ان اسکیمات کو شامل کرنے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 84 کا حوالہ بھی دیا۔ کیا کہنے لیگل opinion کے اور لیگل ٹیم کے؟ ارباب اختیار کے بقول نئی اسکیمات کسی بھی وقت شامل کی جا سکتی ہیں اور انہیں پھر سپلیمنٹری بجٹ میں پاس کیا جا سکتا ہے۔

میرا سوال ارباب اختیار سے یہ ہے کہ جناب عالی پھر تو ہر بجٹ میں دس اسکیمات کافی ہیں باقی پھر مرضی سے جب حکومت وقت کے ساتھ عوام کا سودا ہو جائے تو شامل کر لی جائیں۔ کیا اس طرح ٹھیک نہیں ہو گا ، پی ایس ڈی پی بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ فوڈ منسٹر صاحب بھی سابق چیف سیکریٹری کپتان ریٹائرڈ فضیل اصغر پر برہم نظر آئے کہ مجھے اطلاع کیے بغیر آٹے کے پوائنٹس بنائے جاتے تھے۔ اللہ خیر کرے اب فوڈ پوائنٹس کی بجائے اگر منسٹر فوڈ بلوچستان حکومت کی گاڑیاں ہی وصول کرنے کے بارے میں بات کرتے تو بہتر ہوتا۔

لگتا ہے کہ یہ صوبہ وزراء کا نہیں بلکہ محکمے ان کی نجی ملکیت ہیں ورنہ سابق چیف سیکرٹری بلوچستان صوبے کو بے پناہ نقصان پہنچا چکے ہیں۔ اس پر سب وزراء خاموش رہیں۔ یوں تو کورونا میں سکول بند رہے لیکن وزیرتعلیم نے کابینہ سے سینکڑوں سپروائزروں کی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے ، یہ میں خود جج صاحبان کو اوپن کورٹس میں کہتے ہوئے سن چکا ہوں ۔ سوال یہ ہے ان تمام جج صاحبان کی طرح ہمارے جیسے بہت سارے ناقدین بھی یہ برملا کہتے ہیں کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اور بدترین عدالتی توہین کی جا رہی ہے اور یہ سب کو معلوم ہے ۔

کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ کورٹ کے آرڈرز پر عمل درآمد کرانے والے صوبے کی بڑی پوسٹ پر موجود ایڈیشنل چیف سیکرٹری صبور کاکڑ کو جو سزا ملی ، اس کے بعد کون افسر ہو گا کہ خود کو عدالت سے طاقتور سمجھنے والی صوبائی حکومت کے بجائے عدالتی فیصلے کے ساتھ کھڑا ہو گا اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرانے کی غلطی کرے گا؟ کیونکہ ہر افسر کو اب معلوم ہو گیا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد ان کے مفاد میں نہیں بلکہ ان کا مفاد حکومتی فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں ہے۔ کیونکہ نظام اور عدالتی احکامات کی پاسداری نے صبور کاکڑ کو پوری حکومت کے سامنے تن تنہا لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ عدالت کو مقدس جانتے ہوئے اور عدالتی احکامات کی لاج رکھنے کی پاداش میں ان کو خلاف قانون تبدیل کیا گیا۔

کیا اس کا کوئی نوٹس لیا گیا یا کسی نے اس پر اظہار برہمی کی کسی نے چیف سیکرٹری بلوچستان کو طلب کیا؟ سوال کا جواب ’نہیں‘ میں ہے تو پھر صرف کہنے کی حد تک یہ کہا جائے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ کہتے ہیں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ، مجھے معلوم ہے جس طرح حق کا ساتھ دیتے ہوئے اکثر مجھے پورے نظام کے سامنے تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے بالکل یہی کچھ صبور کاکڑ کے ساتھ کیا گیا کہ ان کو پورے نظام کے سامنے لا کے تن تنہا چھوڑ دیا گیا کہ تم جانو تمہارا تبادلہ جانے۔

کہنے کو تو صوبے کے دوسرے بڑے افسر ایڈیشنل چیف سیکرٹری تعینات تھے لیکن بدقسمتی سے عہدے کی لاج اور کورٹ کے آرڈر کے تقدس کا خیال رکھنے والے افسر کو عدالتی احکامات اور نظام کے تحفظ کے نام پر سزا دی گئی ۔ آج وہ بھی سوچتا ہو گا کہ کہاں ہے وہ قانون، کہاں ہیں وہ لوگ جن کے لیے انہوں نے تن تنہا اتنے بڑے فیصلے کیے نظام کی بہتری کے لئے۔ ہمیں صرف فیصلے اور بات کرنے کی حدود سے نکل کر یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ نظام کی بقاء میں ہمارے فیصلوں اور باتوں میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو نشان عبرت کب بنانا ہے ورنہ تو یہی ہوتا رہے گا اور ہر افسر اپنے ماتحت افسران سے سابق چیف سیکرٹری بلوچستان کی طرح سرکاری اجلاسوں میں یہی فرماتا رہے گا کہ چھوڑو کورٹ کے فیصلوں کو، جو میں کہتا ہوں وہی کرو۔

سب با اثر لوگوں کو اپنے ذاتی مفادات کے بجائے بڑے واضح فیصلے کرنے ہوں گے کہ ہم کسی کے ساتھ نہیں بلکہ نظام کے ساتھ ہیں ۔ اس طرح کے معاملات پر خاموشی اختیار کر کے ہم اپنے نظام کو کھوکھلا کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس میں ہر شخص اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈال رہا ہے، کوئی غلط کام پر خاموش رہ کر تو کوئی اپنے ہی احکامات کی حکم عدولی پر چپ کا روزہ رکھے تو وہ دن دور نہیں کہ ہماری آئندہ نسل ایک ایسے نظام میں ہو گی جہاں ان کے پاس نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوگا، آوے کا آوا بگڑا ملے گا۔ تاہم عہد حاضر کے تمام با اثر لوگوں کے بچے اپنے ہم عصر بچوں کے سامنے شرمندہ کھڑے ہوں گے کیونکہ اس نظام کو خراب کرنے میں ان کے اکابرین نے بھرپور حصہ ڈالا ہو گا۔

تب ان کے پاس اکابرین کی بنائی ہوئی بڑی جائیدادیں ہوں گی تاہم وہ اس مستقبل میں اصول پسند ہونے کے باوجود اپنے اکابرین کے اقدامات کی وجہ سے اپنے ہم عصر لوگوں میں شرمندہ کھڑے ہوں گے۔ ارباب اختیار صاحبان کی ان گراں قدر خدمات پر دونوں ہاتھوں سے سلیوٹ پیش خدمت ہے ۔ اللہ نوکری میں مزید برکت دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments