ملتان میں ہوا قتلِ آم


جن کے باغات تھے انہوں نے بیچ دیے۔
جنہوں نے خریدے ان کی مرضی وہ وہاں پلازہ بنائیں، ہاؤسنگ سوسائٹی بنائیں یا فائیو سٹار بیت الخلاء۔
تم کون؟
”میں ایک عام شہری (*خوامخوہ)
اچھا تو میں کہہ ریا تھا
یہ ماحولیات کا ایشو ہے۔
پہلے بھی پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ ایسے میں یہ قتل آم؟

دوسرا ہمارا چونسا، لنگڑا، سندھڑی، دوسہری، انور رٹول اور فجری بین الاقوامی شہرت یافتہ اور دنیا میں پہلے نمبر کا آم ہے۔ حتیٰ کہ نیسلے فروٹا وائٹلز کے چونسا نیکٹر والے ڈبے پر بھی مینگوز فرام پاکستان لکھا ہوا دیکھا ہے میں نے خود۔ ایسا میوہ جو لندن و برلن کے سپر سٹوروں کے فروٹ سیکشنوں میں ایک ایک دانہ جالی دار فوم میں لپیٹ لپاٹ کر ایک پونڈ فی دانہ یا ڈیڑھ یورو فی دانہ فروخت ہوا کرتا ہے۔

اب ہزاروں ایکڑ اراضی پر صدیوں سے کھڑے پانچ لاکھ کے قریب پیڑ کاٹ دیے گئے تو فصل میں کتنی کمی آوے گی؟

اب کے برآمد تو دور یہاں بھی سیزن میں جو پچاس ساٹھ روپے کلو مل جاتا تھا ، اب پانچ سو سے کم نہ ملے گا۔

نہ ہوا مرزا غالب زندہ، ورنہ اس شقاوت پر دستنبو سے اگلے درجے کی ہجو لکھتا۔ ہائے! آم میٹھا ہو اور بہت ہو۔

پر کہاں؟

تم سب سنگھاڑا کھانے کے لائق ہو۔ گورے کی نقل میں چکوترے کے کڑوے رس کو گریپ فروٹ جوس بتانے والے کیا جانیں پھلوں کے بادشاہ کی کس ظالمانہ طریقے سے نسل کشی کی گئی۔

سٹرابری تو ٹھہرا جہنمی پھل۔
ایک منٹ چاچا
یہ سٹرابری جہنمی کیوں؟
”لیڈی فروٹ جو ہے۔ عموداً کاٹ کر اندر سے غور سے دیکھیو کبھی۔ لاحول ولا قوة۔“

”ہاں تو پہلا نکتہ جو ماحولیات والا ہے وہ اس سے کہیں شدید و سنگین تر ہے۔ بات یہ ہے کہ میں نے دسویں جماعت میں جنگلات کے باب میں پڑھا تھا کہ خصوصاً چلی اور پاکستان میں تو درختوں کو بہت بے دردی سے کاٹا گیا ہے۔ میں سمجھیا تھا سوشل میڈیا کا دور ہے“ اویئرنیس ”کا زمانہ ہے۔ اب کون ایسی حرکت کرتا ہو گا یہ تو پرانی بات لکھی ہے درسی کتاب میں۔

پر آج تصدیق ہو گئی برخوردار۔
اتنے تو بلین ٹری میں لگے نہ ہوں گے جتنے کٹ گئے۔
شمس تبریز کی جگہ اب یہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں ان کی بوٹیاں بھونیں گی جرا (ذرا) گرمیاں تو آ لین دے۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments