حقوق نسواں: ایک اسلامی نقطۂ نظر


ایک اسلامی ممالک میں رہ کر بھی جہاں ہمیں چھوٹوں ، بڑوں، بزرگوں ، مردوں ، عورتوں، پڑوسیوں یہاں تک کہ رشتہ داروں کے حقوق بتا دیے گئے ہیں تو ایسے میں ہمیں عورت مارچ کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟

مساوات کی بنیاد پر خواتین کے حقوق کی حمایت کرنا خاص طور پر عصر حاضر میں غور کرنے کے قابل ہے۔ ”حقوق نسواں“ اصطلاح کے مستند معنی یہ ہیں کہ مرد اور خواتین کی صنفی تفریق کے طرز عمل، تسلط اور جبر سے آزادی کے لیے جدوجہد کی جائے۔

پاکستان میں اصطلاح ”نسوانیت“ دراصل اسلامی ثقافت کے بالکل برعکس ہے۔ نہ صرف اس سے غلط فہمی میں مبتلا کیا گیا ہے بلکہ نام نہاد حقوق نسواں کے ذریعے اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسلام میں، مرد اور عورتیں خدا کی نظر میں برابر ہیں اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عبادت کے یکساں فرائض ادا کریں۔ نماز، ایمان، روزہ اور حج۔

اسلام نے خواتین کی حیثیت کو بلند کیا۔اسلام نے معاشرے میں خواتین کو اعزاز سے زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ انہیں بے مثال حقوق کے ساتھ تحفظ فراہم کیا۔ اسلام نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے، اپنی پسند سے شادی کرنے، شادی کے بعد اپنی شناخت برقرار رکھنے، شوہر سے علیحدگی، ووٹ ڈالنے اور شہری اور سیاسی مصروفیات میں حصہ لینے کا حق دیا۔

اس وقت اسلامی دنیا میں حقوق نسواں کو مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی خطوط میں تیزی سے تقسیم کیا گیا ہے۔ اسلامی اور لبرل نسوانی ماہر دو انتہائی پہلوؤں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اسلام سے پہلے ایک وقت ایسا بھی تھا جب بچیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا اور ان کے بنیادی حقوق سے انکار کیاجاتا تھا۔ اسلام نے خواتین کو ہر طرح کی زیادتیوں سے آزاد کرایا۔

قرآن مرد اور خواتین کو ایک دوسرے کے لباس قرار دیتا ہے۔ انہیں محبت اور رحمت کا پابند رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔ مختلف مسلم ممالک میں حقوق نسواں کی تحریکوں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی آبادی کے تناسب سے خواتین کو حکومت اور دیگر سرگرمیوں میں نمائندگی دیں۔ انہوں نے زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں نمائندگی کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسرے گروپوں نے بھی نہ صرف مساوات کا مطالبہ کیا بلکہ بعض نے تو نسل، زبان یا علاقائی تعصب کی بنیاد پر برتری کا دعویٰ و مطالبہ بھی کیا۔ مساوات تو قابل فہم اور قابل بحث بھی ہے لیکن برتری کا دعویٰ ہر گز نہیں۔

ایک دوسرے سے مسابقت کرنے والی صنفوں کے بجائے، اسلام باہمی تعاون سکھاتا ہے تاکہ ہم آہنگی پر مبنی انصاف پسند معاشرے کی تشکیل کی جائے، جس کی بنیاد ایک مستحکم خاندانی زندگی ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے حقوق نسواں کی بات کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ مردوں اور عورتوں کی آزادی اسلامی عقیدے کی پیروی میں مضمر ہے اور یہ اسلام ہی ہے جو خواتین کو بہترین تحفظ فراہم کرتا ہے۔ عورت مارچ  والے مذہب کو سول سوسائٹی اور ریاست سے الگ کرنے کی بات کرتے ہیں۔

اللہ نے مرد اور عورت دونوں کو برابر پیدا کیا۔ وہ ایک ہی روح اور ایک ہی روحانی فطرت سے تشکیل پائے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے برتر نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments