احتجاجوں کی سیاست اور عوام کے دکھ


پاکستان میں موسم کے لحاظ سے مارچ کا مہینہ جیسے شروع ہوتا ہے ویسے درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ اس طرح سیاسی میدان میں مزید گرما گرمی شروع ہو جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپوزیشن موقع کی انتظار میں ہوتی ہیں ۔ حکومت سے کمی کوتاہی یا کوئی ناکامی کا پہلو سامنے آ جائے تو دھرنا، احتجاج اور لانگ مارچ شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ مارچ کے مہینے میں سب لائحہ عمل جاری ہوتے ہیں۔ پرامن احتجاج آئینی سیاسی حق ہے۔

اسلام آباد میں آخر لوگ اتنی زیادہ تعداد میں کیوں جمع ہوتے ہیں؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں:

کچھ حکومت سے نالاں ہوتے ہیں اور کچھ کاروباری لوگ، تاجران، غریب عوام، کسان مہنگائی سے اور نوجوان بے روزگاری سے تنگ ہوتے ہیں ، ان دنوں سیاسی لوگ اپنی سیاست چمکاتے ہیں ، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، لوگوں کو حکومت کے خلاف کرتے ہیں۔ جلسے جلوس کو کامیاب کرنے کے لئے بہت زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ کیا یہ فنڈنگ بیرون ملک سے ملتی ہے؟ اب تک کوئی سیاسی جماعت یہ بتانے کو تیار نہیں۔ ماضی میں عمران خان کا دھرنا پاکستان کی تاریخ میں طویل ترین دھرنا تھا ، وہ کیسے کامیاب ہوا؟

سیاسی طور پر تو وجوہات مسلم لیگ نون کے خلاف بدعنوانی لے الزامات تھے باقی جلسے میں شام کو انٹرٹینمنٹ کا اسٹیج سجھتا تھا لیکن اس کو فل کرنے کے لیے میوزیکل پروگرام نوجوانوں کی خاص توجہ کا مرکز بنے۔ ڈی جے بٹ ساؤنڈ میوزک سسٹم اور روایتی رقص خٹک ڈانس اس میں نمایاں رہا۔ اس میں دور دراز سے لوگ شامل ہوئے ، ساتھ جڑواں شہروں کے لوگ بھی شامل تھے۔کچھ ایسے لوگ تھے جو صرف عطاء اللہ عیسی خیلوی اور دوسرے معروف گلوکاروں کے گیتوں سے لطف اندوز ہونے کو آئے تھے۔

جب ان شرکاء سے پوچھا اتنا دور سے کیسے آنا ہوا؟ معلوم ہوا بڑے گلوکار شادیوں کی محفل میں آتے ہیں اور بڑے امیر لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں ، غریب امیروں کی شادیوں میں جانے سے محروم رہتے ہیں تو اس دھرنے میں انہیں سیاسی رہنماؤں نے سنہری موقع بخشا ہے۔

نوجوانوں کو فیملی سے شدیدطعنے ملتے ہیں ، اس لئے وہ گھروں سے تنگ ہو کر حکومت کے خلاف احتجاج کے لئے نکلتے ہیں۔ سیاسی قائدین ولولہ انگیز تقریروں میں نوجوانوں کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو نوجوان جو ڈگریاں مکمل کر چکے ہیں، ریاست حکومت ان کے لئے روزگار مہیا کرے۔ جب حکومت ناکام ہو جاتی ہے، اپنے کیے وعدوں کو بھلا دیتی ہے تو پھر احتجاج کے لئے عوام سڑکوں کا رخ کرتے ہیں۔

دارالحکومت اسلام آباد میں صدر ، وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ ہیں ۔ اپوزیشن کا ہدف پارلیمنٹ کو گھیرنا ہوتا ہے۔ باقی لوگ اسلام آباد سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں ، یہ اچھا صاف ستھرا شہر ہے اور مری سیاحتی مقام قریب ہے۔ موسم اکثر خوشگوار ہوتا ہے۔ میدانی علاقوں ( جنوبی پنجاب ) اور سندھ کا موسم گرمیوں میں شدید گرم ہوتا ہے۔ گرم ہوا ، لو اور سورج کی تپش سے بہت سے لوگ گرمی کے موسم میں شمالی جات کا رخ کرتے ہیں۔

ویسے بھی لوگ اتنا طویل سفر اکیلے اور غربت کی وجہ سے زیادہ کرایہ اپنی جیب سے مشکل ہی ادا کرتے ہیں۔ یہاں کی رہائش کھانا پینا مہنگا ہے ، یہ سب اخراجات غریب لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ سیاسی لوگ اپنے مخصوص مقاصد کے لئے دور دراز سے ٹرانسپورٹ وغیرہ بک کرتے ہیں ، لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں ، مفت آنا جانا اور رہائش کی آفر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں چلو جی اسلام آباد کی مفت سیر ہو جائے گی۔ ساتھ مری بھی ہے ، موقع ملا ادھر چلے جائیں گے۔

پر امن احتجاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن حق پر ہوتے ہوئے بھی احتجاج میں ایسا عمل اختیار کرنا جس سے کسی انسان کو یا کسی کی املاک کو نقصان پہنچے، اس کی نہ تو کوئی مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی قانون اسے جائز قرار دیتا ہے۔

جہاں تک احتجاج کے طریقے کا معاملہ ہے ، اس سے ہی ایک باشعور اور بے شعور انسان کی شناخت ہوتی ہے۔ جمہوری اور مہذب معاشرے میں احتجاج اپنی بات متعلقہ افراد تک پہچانے کا ذریعہ ہے جس میں پلے کارڈز، بینرز، مائیکروفون کا استعمال کرتے ہوئے جلسے جلوس اور مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ آپ افراد، اداروں اور چیزوں کا سماجی بائیکاٹ کر کے بھی احتجاج ریکارڈ کرا سکتے ہیں۔ ماضی میں دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد ، جس کے مطابق 4 سے زائد افراد کا ایک ساتھ ایک جگہ جمع ہونا منع ہوتا ہے، احتجاج کرنے والوں نے 3، 3 افراد کو فاصلے سے کھڑا کر کے احتجاج کیا تھا۔ اسی طرح کارٹونز کی مدد سے، ہاتھوں کی زنجیر بنا کر یا نعرے اور نغمے بنا کر بھی احتجاج کیا جا سکتا ہے ، لیکن احتجاج کی آڑ میں کسی کی ذاتی یا سرکاری املاک اور جان کو نقصان پہنچانے کی کوئی بھی تاویل پیش نہیں کی جا سکتی۔

دارالحکومت اسلام آباد میں پہلا بڑا مظاہرہ چار اور پانچ جولائی 1980 کو ہوا تھا، جب مذہبی جماعت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے سابق صدر ضیاء الحق کے زکٰوۃ اور عشر آرڈیننس کے خلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا۔ اس دھرنے میں ہزاروں افراد شریک تھے اور ان کا موقف تھا کہ زکٰوۃ اور عشر آرڈیننس میں شیعہ برادری کو نظر انداز کیا گیا۔ دو روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے کے لیے نہ تو پولیس کی مدد سے کنٹینر لگا کر سڑکیں بند کیں اور نہ ہی لاٹھی چارج یا آنسو گیس کا استعمال ہوا۔ مجبوراً حکومت نے شیعہ مکتب فکر کو اس آرڈیننس سے مستثنیٰ رکھنے کا مطالبہ تسلیم کر لیا۔

اسلام امن کا مذہب ہے، اس میں ہر صورت لوگوں کا خیال رکھا گیا ہے، آپ دیکھ لیں کہ جنگ کے دوران بھی کہا گیا ہے کہ درختوں کو نہ کاٹو، خواتین و بچوں کو نہ روکو۔ نہ مارو، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی مذہب کے لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جائے۔ انہیں مارا پیٹا جائے۔ اصل میں اسلام کی غلط تصویر پیش کی گئی ہے۔

اس سے پہلے اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دیا جا چکا ہے، املاک کو نقصان پہنچایا گیا، صحافت پر شب خون مارا ، کتنے ہی  صحافی پتھروں کا نشانہ بنے ، جیو نیوز کی اینکر رپورٹر خاتون کو ہراساں کیا گیا اور پی ٹی وی کی عمارت کو نقصان پہنچایا گیا۔پارلیمنٹ تک پر چڑھائی کی گی۔ کیا وہ غلط نہیں تھا؟

اصل میں ہم دو رنگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آج اگر ہمارے وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ احتجاج نہ کیا جائے تو انہیں پہلے اپنے احتجاج اور توڑ پھوڑ پر معافی مانگنی چاہیے۔ ہمارے ملک کا المیہ ہی یہ ہے کہ جب سیاست دان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب وہی سیاست دان حکومت میں آ جاتے ہیں تو پھر ان کے اصول بدل جاتے ہیں۔ اگر یہ سیاست دان اور مذہبی رہنما اپنے کارکنان اور حامیوں کی صحیح تربیت کریں اور اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی احتجاج کا مہذب طریقہ اپنائیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ملک کی املاک کو نقصان پہنچے۔

اب کی بار صورتحال پیچیدہ ہے ، وزیراعظم این آر او دینے کو تیار نہیں اور مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں پر سنگین مقدمات ہیں۔ شہباز شریف جیل میں قید ہیں ۔نواز شریف پر مقدمات ہیں ، بیرون ملک علاج کے لئے گئے ہیں، ابھی تک واپس نہیں آئے ۔ زرداری بیمار ہیں ، وہ بھی شاید محفوظ راستہ اختیار کر کے بیرون ملک علاج کے لئے چلے جائیں۔ جیسے پرویز مشرف علاج کے لیے گئے ہیں۔ ابھی تک واپس نہیں آئے ہیں۔ اب قیادت مریم اور بلاول کے پاس ہے ۔ وہ کس طرح حکومت کو دھرنے احتجاج سے گرا سکتے ہیں؟

ویسے ماضی میں تحریک انصاف کے طویل دھرنے حکومت نون لیگ کو نہ گرا سکے تھے،  اب نون لیگ سمیت دوسری اتحادی جماعت ناممکن ہے کہ کامیاب ہوں کیونکہ مولانا فضل الرحمان نے کوشش کی مگر اتحادی پچھلی بار بروقت ان کا ساتھ نہ دے سکے اور جمعیت علماء اسلام  کے لوگ اکیلے دھرنے میں رہ گئے۔

یہ اب بھی لانگ مارچ کی تیاریاں شروع ہیں جس میں پی ڈی ایم اندرونی طور پر متحد نہیں ہے کیونکہ ان سیاسی قائدین کے اوپر مقدمات درج ہیں ، اندر ہی ہر جماعت میں اپنے ذاتی سیاسی مفاد چھپے ہیں ۔ مشکل ہے کہ یہ لوگ موجودہ حکومت کو گرا سکیں ۔

چلیں جو بھی سیاسی جماعت برسراقتدار ہو ، ہماری گزارش ہے روزگاری مہنگائی یقینی طور پر ختم کریں ، سب کا احتساب ہو، کسی ایک سیاسی رہنما کا نہیں۔ کورونا وائرس ابھی تک کنٹرول نہیں ہے وائرس کی تیسری لہر چل رہی ہے کوئی پتہ نہیں کس وقت کون چل بسے، اس لئے غریب لوگوں کی مالی معاونت کریں۔ سچے محب وطن ثابت ہوں ، لوگوں کے جان مال کا خیال کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments