مودی کا محبت نامہ، دال میں کچھ کالا ہے؟


ان واقعات کو فسانہ جانتے ہوئے کہ ماضی میں کوئی پاکستان کی فضاؤں سے اڑتا ہوا پنچھی بھارتی فضاؤں میں کس قدر دہشت گردی کرتا ہوا پکڑا گیا، یا کسی بچے کا بھولا بھٹکا غبارہ فضاء میں بلند ہو کر بھارتی حدود میں جا گرا ، تازہ خبروں پر نظر ڈالیں تو کچھ اچنبھا معلوم ہوتا ہے کہ انڈین حکومت کی جانب سے آنے والے خط میں وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک پڑوسی ملک ہونے کے ناتے انڈیا چاہتا ہے کہ اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں اور اس کے لیے لازمی ہے کہ دہشت اور دشمنی سے خالی اعتماد پر مبنی ماحول ہو۔‘

خط میں کورونا کی صورت حال کا تذکرہ بھی ہے اور لکھا ہے کہ ’یہ انسا نیت کے لیے ایک مشکل وقت ہے، میں پاکستان کے عوام کے لیے نیک جذبات اور خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ وزیر اعظم عمران خان کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد نریندر مودی نے ٹویٹر پر لکھا ‘وزیراعظم عمران خان کی کورونا وائرس سے جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات۔’

کچھ تو دال میں کالا ہے۔ کہتے ہیں بنیے کا بیٹا کسی وجہ کے بغیر نہیں گرتا ۔ کہاں فون اٹھانے سے انکار کہاں پیغام پر پیغام۔ کورونا پر وزیراعظم عمران خان کی مزاج پرسی ، اب یوم پاکستان پر صدر وزیراعظم دونوں کو مبارک باد، امن کی خواہش کو لاکھ سلام مگر یہ سب سراب ہو سکتا ہے۔ یہ پیش رفت وزیراعظم عمران کے اس بیان کے چند روز بعد ہوئی ہے کہ اب بھارت کو پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے عملی طور پر پہلا قدم اٹھانا پڑے گا کیونکہ پاکستان پہلے ہی بہت سی کوششیں کر چکا ہے اور جب تک کہ بھارت کی جانب سے ایسا نہیں کیا جاتا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

کیا یہ بامعنی مذاکرات کی طرف لے جائے گا؟  نہیں۔ پہلے 5 اگست 2019 کے بھارتی اقدامات واپس لیے جائیں۔ جب مقبوضہ جموں و کشمیر کو غیر قانونی الحاق کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان مستقل کشیدہ تعلقات پیدا ہوئے، دونوں ممالک پہلے ہی کشمیر کی وجہ سے محدود تنازعات کے علاوہ تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور یہ تو ابھی سال کے آغاز کی ہی بات ہے کہ جب بھارتی وزیراعظم مودی نے بھارتی فوج کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی جانب انگلیاں اٹھاتے ہوئے متکبرانہ انداز میں کہا تھا کہ بھارتی افواج اب بھی اس قابل ہے کہ وہ پاکستان کو دس دن سے کم عرصے میں دھول چٹا دیں۔

معرکہ 27 فروری میں بھی وہ دھول چٹانے آئے تھے اور چاٹ کے گئے، یہ شاید یادداشت کی خرابی کا عمل ہے۔ پاکستان کی جانب سے مودی کے متشدد بیانات پر شدید احتجاج کیا گیا تھا اور دنیا کو بھارتی جارحیت کا نوٹس لینے کی اپیل کی گئی تھی۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے ہندوستانی بیانات کو علاقائی امن و سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ دفتر خارجہ نے مودی کے پاکستان مخالف تبصرے بی جے پی حکومت اور قیادت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں امتیازی سلوک، کشمیر مخالف اور اقلیت مخالف پالیسیوں پر بڑھتی گھریلو اور بین الاقوامی تنقید سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوششں قرار دی تھیں۔

بھارتی وزیراعظم کی گزشتہ دھمکیوں اور اشتعال انگیز بیانات نے بی جے پی کی انتہا پسندانہ ذہنیت کو مزید واضح کیا۔ شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف ہفتوں سے جاری احتجاج کے بعد مودی دباؤ میں ہیں جس پر مسلم مخالف، ایک سست معیشت ہونے اور دہلی میں ریاستی انتخابات کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ مودی نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر کے بھارت کے خلاف پراکسی وار جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کی طرف سے بارہا اس الزام کی تردید کی گئی۔

بھارتی فوج پر کشمیریوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے کڑی تنقید کی کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں کشمیریوں اور مسلمانوں کے لئے سزائے موت، تشدد اور عصمت دری سے لے کر مشتبہ افراد اور عام شہریوں کو تاوان کے بدلے پکڑ نے، اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھرپور پابندی عائد کرنے جیسے گھناؤنے اقدامات شامل ہیں۔

یہی وزیراعظم عمران خان کی شرط ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کر نے کے تمام متنازعہ فیصلے ختم کیے جائیں اس کے بعد ہی کشمیر مذاکرات کے ایجنڈے میں سرفہرست ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ ہم بے معنی مذاکرات میں نہیں پھنسیں گے۔ آپس کی بات ہے ، محبت نامے میں بھی مودی نے اپنی ہی بات رکھی ہے کہ تعلقات کی بحالی کے لئے دہشت گردی سے پاک ماحول چاہیے۔ یہ سب کو پتہ ہے وہ دہشت گرد کسے کہتا ہے۔ اسد عمر نے مودی کے خیر مقدمی پیغام پر بڑی مسرت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی امن چاہتے ہیں۔ فی الوقت کشمیر وہ بھی بھول گئے۔

گزشتہ ماہ 25 فروری کو پاکستان اور انڈیا کنٹرول لائن پر فائر بندی کے لیے پہلے سے موجود معاہدوں پر سختی سے عمل درآمد پر متفق ہو گئے تھے۔ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ’دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نے ہاٹ لائن پر اہم رابطہ کیا ہے اور انہوں نے اتفاق کیا ہے کہ 24 اور 25 فروری کی درمیانی رات سے وہ لائن آف کنٹرول کے تمام سیکٹرز پر فائر بندی کے حوالے سے تمام معاہدوں اور سمجھوتوں پر سختی سے عمل کریں گے۔‘

بیشتر افراد کا خیال ہے کہ معاہدہ بیک چینل کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ میں حائل واحد رکاوٹ مسئلہ کشمیر ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی تنازعہ کشمیر کو پرامن ذرائع سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں لگتا ہے کہ اب کافی وقت گزر چکا ہے، ہمیں ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنا ہو گا۔“ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہیں کہ کیا اعتماد سازی کے حالیہ اقدامات سے ہندوستا ن اور پاکستان کے مابین عدم اعتماد کی فضاء میں بہتری ممکن ہے؟

بھارتی اخبارات نے کافی شور مچایا تھا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان سے دہشت گردی کی مالی اعانت کے خلاف قوانین سخت کرنے کا مطالبہ کیا، کیا پاکستان کے بہترین معاشی اقدامات اور دنیا میں ابھرتے ہوئے بہتر امیج کے بعد اب بھارت کی افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دراندازیوں اور دہشت گردی کی گزشتہ تمام کارروائیوں کے سلسلے میں بھارت کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے لگام ڈالی جائے گی؟  کیا مودی کو ڈر ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکل کر بھارت کو اس میں ڈلوانے کے اقدامات کا آغاز کرے گا؟

خطے کی بدلتی صورتحال اور چین کے ہاتھوں ناکوں چنے چبانے کے بعد مودی کو اپنی اوقات اچھی طرح پتہ چل گئی ہو گی، اب پاکستان اس دور میں نہیں جب یہاں کے کٹھ پتلی وزرائے اعظم بھارت کی تاب نہ لاتے ہوئے انہیں لسٹیں پکڑایا کرتے تھے یا ان سے پینگیں بڑھا کر دوستانہ تعلق کی آڑ میں اپنا ذاتی کاروبار بڑھاتے رہتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments