خوش نصیب پیغام رساں


’عمار، تم اس کام کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہو جو میں تمہیں سونپنے والا ہوں۔‘ پلاٹون کے کمانڈر نے عمار کو اپنی سیاہ اور گہری آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا۔

’جی سر، آپ حکم کریں۔‘ تیس سالہ عمار نے برجستہ جواب دیا۔

’تمہیں سالار کے گھر جانا ہے خبر دینے کے لئے۔ تم فجر کے وقت صبح نکل جانا۔ تمہارے لئے جیپ کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ اور کل سہ پہر پانچ بجے تک واپس پہنچ جانا۔ اس کا گاؤں یہاں سے تقریباً دو سو کلو میٹر دور ہے۔‘

’جی سر، ایسا ہی ہو گا۔‘ عمار نے تابعداری سے جواب دیا۔
’تمہارا کوئی سوال ہے؟‘
’جی، شاید اس کام کے لئے میں اتنا موزوں نہیں ہوں!‘ عمار کی آواز میں قدرے یاسیت تھی۔

’میں نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ تم اس کے گھر والوں کو اچھی طرح سے جانتے ہو۔ اسی لئے تو میں نے تم پہ یہ ذمہ داری ڈالی ہے۔ اور تم تو ان کوخوش خبری سنانے جا رہے ہو پھر یہ کیسی ہچکچاہٹ؟ تم خود کو خوش نصیب پیغام رساں سمجھو۔ ایک بات اور، ان کے ہمسایوں میں سے کسی عورت کو ساتھ لے کر جانا۔‘

’سر، میں ایسا ہی کروں گا۔‘

عمار رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح کاذب ہوئی تو عمار وردی پہن کر ڈرائیور کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ڈرائیور نے صبح کی پراسرار خاموشی توڑنے کی کوشش کی۔ ’اگر آپ کو سونا ہے تو سو جائیں مجھے سالار کے گاؤں کا راستہ پتا ہے۔‘

عمار کچھ دیر خاموش رہا۔ ’کیا تم نے کبھی کسی کو موت کی خبر پہنچائی ہے؟‘

’جی، ڈرائیوری کے کام میں سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اچھا بھی اور برا بھی۔ آپ تو سالار کے بہت اچھے دوست تھے۔‘

’پتا نہیں یہ خبر کیسے اس کے گھر والوں کو سناؤں گا!‘
’لیکن سالار تو ملک کے لئے لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ یہ تو اچھی بات ہے جی۔‘

’کیا یہ اچھی خبر ہے کہ اس کی بیوی ایک بیوہ بن چکی ہے۔ اس کا شریک حیات اب حیات نہیں ہے۔ اس کا بیٹا اب یتیم ہو چکا ہے! سالار کو دشمن نے مار دیا، کس کا دشمن، کون سا دشمن، کیا ہم نے اس کو اپنا دشمن بنایا یا کسی نے ہم کو دشمن قرار دے دیا؟‘

ڈرائیور نے اندھیرے میں گھور کر عمار کو دیکھا۔ ’صاحب جی آپ کی طبیعت خراب لگ رہی ہے۔ آپ آنکھیں بند کر کے آرام کریں۔‘

عمار نے ڈرائیور کو جواب نہیں دیا اور ساتھ بھاگتے ہوئے چاند کو دیکھنے لگ گیا۔

سالار کے گاؤں پہنچ کر عمار نے ڈرائیور کو جیپ روکنے کا اشارہ کیا۔ ’صاحب جی، گاؤں کی صبح کتنی خوبصورت ہے، جی مجھے اپنا گاؤں یاد آ رہا ہے۔‘

’لیکن میں اس چھوٹی سی بہشت کو اجاڑنے کے لئے آیا ہوں۔ آج شاید میں دوزخ کا داروغہ ہوں!‘ عمار کی آنکھیں نم تھیں۔

ڈرائیور کے لب کچھ دیر کے لئے سل گئے ، پھر اس نے اپنی قوت گویائی کو اکٹھا کیا۔ ’لیکن آپ کو تو یہ بتانا ہے کہ وہ شہید ہو گیا ہے ملک کے لئے۔‘

عمار نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے ڈرائیور کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور پیپل کے درختوں کے جھنڈ کے پار مکانوں کی طرف چل پڑا۔ دور سے اسے سالار کا گھر نظر آ رہا تھا ، ہنستا کھیلتا مہکتا ہوا۔ اس کے جسم میں ایک جھرجھری سی آئی۔ اس نے نگاہوں کو نیچے کر لیا اورسالار کے ساتھ والے گھر پہ دستک دی۔

ایک ادھیڑ عمر کی عورت میلے کپڑوں میں باہر آئی تو عمارنے اس سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ سالار کے گھر چلے۔ اس عورت نے دوبارہ عمار کی وردی کی طرف دیکھا۔ اس کا رنگ زرد ہو گیا اور دو موٹے آنسو اس کے کھردرے گالوں کو تر کرتے ہوئے نیچے بہہ گئے۔ دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی اور بات نہیں کی۔

سالار کے گھر کی دیوار چنبیلی کے پھولوں سے لدی پھندی ہوئی تھی۔ اس عورت نے آگے بڑھ کر دروازے پہ دستک دی، عمارنے کانوں پہ انگلیاں رکھ لیں۔ چنبیلی کی بیل کے پیچھے دیوار کے اس پار کوئی دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا۔

دروازہ آہستہ سے کھلا لیکن عمار ہانپتا ہوا جیپ کی طرف واپس بھاگ رہا تھا۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments