لاک ڈاؤن اسمارٹ ہو یا مکمل، تعلیم دشمن ہے


جب پورے ملک میں بصد مشکل چند سو کیسز سے زیادہ کووڈ 19 کے مریض ظاہر ہونے شروع نہیں ہوئے تھے، پورا ملک مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ بازار ہوں، ایک شہر سے دوسرے شہر آنا جانا ہو، حتیٰ کہ گلیوں میں بلا وجہ گھومنا پھرنا ہی کیوں نہ ہو، ہر قسم کی نقل حرکت پر مکمل پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ ساری ملیں اور کارخانے خاموش کرا دیے گئے تھے۔ ملکوں کے درمیان ہر قسم کی نقل و حمل اور آنے جانے کی پابندی کی وجہ سے ہوائی، زمینی اور آبی راستے تک بند کر دیے گئے تھے جس کی وجہ سے معاشی قتل عام تو بے شک ہوا تھا لیکن ہوائیں اور فضائیں ہر قسم کی آلودگی سے پاک صاف محسوس ہونے لگی تھیں۔

اب جبکہ پورے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ کووڈ 19 سے متاثر ہو رہے ہیں اور درجنوں کی تعداد میں ہر روز ہلاکتیں ہو رہی ہیں، حکمران یہ فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کہ آیا ملک کو چند ہفتوں تک ہی سہی، مکمل طور پر بند کر دیا جائے یا نہیں۔

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ”اسمارٹ“ لاک ڈاؤن کی نہ صرف ایک نئی اصطلاح ایجاد کی بلکہ اس کا مکمل تعارف بھی کرایا۔ جس علاقے میں بھی ایسی وبا کا دباؤ زیادہ محسوس کیا گیا، وہاں ہر قسم کے کاروبار زندگی کو بند کر دیا گیا لیکن جہاں کووڈ 19 کا دباؤ معمولی نوعیت کا تھا، اس علاقے کو گلیوں یا گھروں تک ہی محدود رکھا گیا اور باقی پورے ملک میں ہر قسم کی معاشی و تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھا گیا تاکہ معاشی سرگرمیوں کو رواں دواں رکھا جا سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پاکستان کا یہ قدم مستحسن ثابت ہوا اور ملک مکمل معاشی تباہی کی دلدل میں گرنے سے محفوظ رہا۔ بے شک حکومت پاکستان نے ہر قسم کی سرگرمیوں کی اجازت تو ضرور دی لیکن ان سرگرمیوں کو محدود رکھنے اور پورے ملک کے عوام کو ایس او پیز پر مکمل عمل کرنے سے مشروط کر دیا۔

بدقسمتی سے محدود سرگرمیوں اور ایس او پیز پر عمل در آمد کرانے پر حکومت مکمل طور پر ناکام رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کووڈ 19 کا پھیلاؤ خطرناک صورت اختیار کرتا گیا اور حکومت ایک مرتبہ پھر سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کرنے کے متعلق غور کرنے پر مجبور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

ہم بہر لحاظ دنیا کی دیگر اقوام سے مشکل قوم ہیں۔ جب پہلی مرتبہ سخت ترین لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا تھا اس وقت بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں 100 فیصد عمل درآمد کرنے کے لئے قوم تیار نہیں تھی۔ اب جبکہ ساری پابندیاں قریب قریب اٹھا لی گئی ہیں، عوام بے نکیل اونٹوں کی طرح گردن اٹھائے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح اب دوبارہ سخت ترین لاک ڈاؤن کی جانب جانا پڑتا نظر آ رہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ کسی ایک فرد کو بھی لاک ڈاؤن کا پابند بنایا جانا مشکل ہے۔ ویسے بھی جب تک کوئی فرد خود کووڈ کا شکار نہ ہو جائے اور کسی گھر کا کوئی فرد کووڈ کا شکار ہو کر کوچ نہ کر جائے تو فرد یا گھر والوں کو اس بات کا یقین کرانا کہ ملک میں وبا کا پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے، جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔

وزیر تعلیم نے طلبہ کو خوش خبری سنائی ہے کہ ان کی تعلیمی سرگرمیاں بہرصورت بحال رکھی جائیں گی البتہ جہاں جہاں کوویڈ کا دباؤ 8 فیصد سے زیادہ ہو گا ، وہاں وہاں تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ اسلام آباد کے تمام تعلیمی اداروں کے بند ہونے کا حکم تو آ ہی چکا ہے، صوبے بھی مسلسل اس بات پر غور کر رہے ہیں البتہ ملک کے سیکڑوں مقامات پر کووڈ کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد ہیں اور کچھ علم نہیں کہ یہ پابندیاں مزید کہاں کہاں لاگو کر دی جاتی ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پورے ملک میں جہاں جہاں بھی تعلیمی سرگرمیاں بند ہیں، بند کر دی جائیں گی یا بند کر دیے جانے کے امکانات موجود ہیں، کیا وہ سب کے سب میٹرک، انٹر، گریجویشن یا ماسٹرز کے طالب علم نہیں ہیں؟ کیا ان سب کے امتحانات ایک ساتھ نہیں ہوتے؟ کیا ان کے بورڈ اور یونیورسٹیاں سب کے امتحانات ایک ہی تاریخ میں نہیں لیا کرتیں؟ ایک ہی شہر یا صوبے کے اگر کچھ تعلیمی ادارے بند رہیں اور کچھ کھلے رہیں تو کیا بند اور کھلے اداروں کے امتحانات کے لئے الگ الگ امتحانی پرچے بنائے جائیں گے؟ کیا سب طالب علموں کا معیار تعلیم یکساں رہ سکے گا؟

اسمارٹ لاک ڈاؤن کا فائدہ معاشی اعتبار سے تو کسی حد تک درست قرار دیا جا سکتا ہے لیکن پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں سے کچھ کا مسلسل کھلے رہنا اور کچھ کا بند کر دیا جانا، بہر صورت تعلیم اور طلبہ دونوں کے لئے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں۔

اس بات کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ جن جن علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن لگا دیا جاتا ہے اور جو جو تعلیمی ادارے سربمہر کر دیے جاتے ہیں تو تمام طالب علم اسمارٹ لاک ڈاؤن کے علاقوں کے تعلیمی اداروں کے طالب علم نہیں ہوتے اور نہ کھلے یا بند تعلیمی اداروں میں صرف اسی کے اردگرد کے طالب علم رہائش پذیر ہوتے ہیں۔

تعلیمی سرگرمیوں کا ایک ہی معیار برقرار رکھنے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کے ایک ایک طالب علم کے لئے ہر صورت حال میں تعلیمی ادارے کھلے رکھے جائیں یا پھر پورے ملک کے سارے ادارے سربمہر کر دیے جائیں۔ درمیان کا ہر راستہ بہت بڑا دماغی خلجان برپا کر کے رکھ دے گا۔ وزیر تعلیم جس بات کو ”خوشخبری“ سے تعبیر کر رہے وہ مستقبل میں ”خبر بد“ کا روپ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ امید ہے کہ راقم کی اس بات پر بھی ضرور غور کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments