گولڈن گرلز کے نام خالد سہیل کا دوست نامہ



محترمہ رابعہ الربا و معظمہ تحریم عظیم صاحبہ!

میں آپ دونوں کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ آپ نے مل کر ایک سنجیدہ مکالمے کا آغاز کیا ہے۔ اس مکالمے سے ان لڑکیوں اور عورتوں کے جذبات و خیالات کا اظہار ہو گا جو خود اپنے خیالات و جذبات کے اظہار سے کتراتی اور گھبراتی ہیں۔ آپ کے مکالمے سے دیگر خواتین لکھاریوں کو بھی بے خوف و خطر لکھنے کی ہمت ہو گی۔ میں ’ہم سب‘ کی بہت سی خواتین لکھاریوں کو سنجیدگی سے پڑھتا ہوں اور ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

میری خواہش ہے کہ اس مکالمے میں مرد بھی شامل ہوں ۔ خاص طور پر وہ مرد جو خواتین کے مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں ، ان کی جدوجہد سے ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کی دل کی گہرائیوں سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

ایک ہیومنسٹ اور سائیکوتھراپسٹ ہونے کے ناتے مجھ سے بہت سے مرد اور عورتیں پوچھتے ہیں کہ فیمینسٹ لکھاریوں کی تحریروں میں مردوں کے خلاف اتنا غصہ کیوں ہے؟ فیمینسٹ عورتوں کا کہنا ہے کہ ہمارا غصہ مردوں کے خلاف نہیں پدرسری نظام کے خلاف ہے لیکن بہت سے مرد اسے ماننے پر راضی نہیں ہیں۔

میں نے یہ سوال جب اپنی کینیڈین خواتین دوستوں سے بارہا پوچھا تو ایک دن میری چالیس برس کی دوست بے ٹی ڈیوس (BETTE DAVIS) نے بڑے سکون ، تحمل اور بردباری سے مجھے بتایا اور سمجھایا کہ مغرب میں بھی عورتوں کی جدوجہد کی دو تحریکیں ہیں۔

پہلی تحریک فیمینزم (FEMINIST MOVEMENT) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس تحریک میں شامل عورتیں پدرسری نظم کے خلاف محاذ آرا ہیں ، وہ سیاسی کارکن ہیں اور ان کے نعروں اور ان کی تحریروں میں مردوں کے خلاف غصہ نمایاں نظر آتا ہے۔

میں نے اپنے ’ہم سب‘ کے کالم ورجینیا وولف اور نسائی ادب میں لکھا تھا:

’ورجینیا وولف خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ خود مختار سوچ کو پروان چڑھائیں اور زندگی اور ادب کے بارے میں ان کی اپنی رائے ہو کیونکہ وہ محسوس کرتی تھیں کہ تخلیقی اور تنقیدی تحریر میں ”۔ آپ اس وقت تک کسی ناول پر تبصرہ تک نہیں کر سکتیں جب تک آپ کی اپنی رائے نہیں ہے، جب تک انسانی رشتوں، اخلاقیات اور جنسی عمل کو لے کے آپ اپنے سچ کا اظہار نہیں کر سکتیں۔“

ورجینیا وولف نے خواتین لکھاریوں کو انتباہ کی کہ اگر وہ ادب میں عظیم افسانے اور شاہکار تخلیق کرنا چاہتی ہیں تو انہیں مردوں سے غصے، حسد ، نفرت اور تلخی پر مبنی سیاسی تحریروں سے دور رہنا ہو گا کیونکہ

’’women‘ s writing has suffered in the past from the intrusion of feminist anger ”

ورجینیا وولف کا موقف تھا کہ ایک حقیقی فنکار اور بڑا لکھاری انسانیت کے اس مقام سے لکھتا ہے جہاں وہ جنسی اور صنفی تعصب سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے انسانی تاریخ کے عظیم لکھاریوں کے بارے میں لکھا، ”جب وہ لکھتے ہیں تو نہ وہ مرد ہوتے ہیں نہ عورت ہوتے ہیں۔ وہ انسانی روح کے اس بڑے حصے کو متاثر کرتے ہیں جو صنف سے عاری ہے ، وہ جذبات کو لے کے اکساتے نہیں ہیں ، وہ انسان کی عظمت بڑھاتے ہیں، سنوارتے ہیں، تعلیم دیتے ہیں۔ وہ صنفی امتیاز ، تعصب اور استحصال سے بالاتر ہو کر ایسا ادب تخلیق کرتے ہیں جن سے ہر طبقے کے مرد و زن دونوں محظوظ اور مسحور ہو سکتے ہیں۔‘

بے ٹی ڈیوس نے مزید بتایا کہ دوسری تحریک عورتوں کی آزادی اور خود مختاری کی تحریک (WOMEN ’S LIBERATION MOVEMENT) ہے۔ اس تحریک کا مردوں کی سیاست سے زیادہ لینا دینا نہیں۔ اس تحریک میں شامل خواتین دوسری عورتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور ان مردوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں جو ان کے دوست اور ہمدرد ہیں۔ ایسی خواتین میں غصہ نہیں پایا جاتا۔ ان کی جدوجہد سیاسی سے زیادہ جذباتی، سماجی اور تخلیقی ہے۔

مجھے اپنی دوست بے ٹی ڈیوس میں کبھی مردوں کے خلاف غصہ یا تلخی نظر نہیں آئے اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کی دوستی سے بہت کچھ سیکھا۔ بے ٹی کے بہت سے مرد دوست اور میری بہت سی مشرقی و مغربی خواتین دوست ہیں۔

جب ہم مغرب کی سماجی اور سیاسی تحریکوں کو تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہر تحریک میں چاہے وہ

۔ کسانوں مزدوروں کی سرمایہ داروں کے خلاف ہو
۔ کالوں کی گوروں کے خلاف ہو
۔ گے اور لیسبین کی سٹریٹ لوگوں کے خلاف ہو
دو گروہ پائے جاتے ہیں۔
پہلا گروہ سیاسی ہوتا ہے اس میں جابر و ظالم کے خلاف غصہ زیادہ ہوتا ہے
دوسرا گروہ نفسیاتی اور سماجی ہوتا ہے اس میں غصہ کم ہوتا ہے۔

نفسیاتی طور پر ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عورتوں میں غصہ آتا کہاں سے ہے۔ کوئی بھی بچی غصہ لے کر پیدا نہیں ہوتی لیکن اس کے بچپن اور نوجوانی کے تجربات اسے غصیلا بنا دیتے ہیں۔

جب عورتوں کا جسمانی ، ذہنی، سماجی ، معاشی اور جنسی استحصال کیا جاتا ہے تو ان کے دل و دماغ میں مردوں سے خوف اور ان کے خلاف غصہ ایک فطری ردعمل ہے۔

میں نے اپنے کلینک میں بہت سی عورتوں کی مدد کی ہے کہ وہ اپنے غصے کا اظہار کریں تاکہ وہ ذہنی طور پر صحت مند زندگی گزار سکیں اور مردوں سے مثبت رشتے قائم کر سکیں۔ میں اپنی ایک مریضہ کی ڈائری آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو عورتوں کے ماضی کے تکلیف دہ تجربات کا اندازہ ہو سکے۔

’ میرا بہت جی کرتا ہے کہ میں کینیڈا سے پاکستان اپنے عزیزوں سے ملنے جاؤں لیکن مجھے جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر لڑکی پندرہ سال کی ہو یا پچاس برس کی اسے پاکستانی مردوں سے ڈرنا چاہیے۔

ایک دن ڈاکٹر سہیل نے مجھ سے پوچھا کہ آخر مجھے پاکستانی مردوں سے ڈر کیوں لگتا ہے۔ ان کے پوچھنے سے مجھے آج سے 29 برس پیشتر کا واقعہ یاد آیا، جب میری عمر صرف 19 برس تھی۔

مجھے کینیڈا آنا تھا اور کینیڈین ویزے کے لیے مجھے میڈیکل کروانا تھا۔ میری والدہ مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئیں اور کہا

’بیٹا میری بیٹی کا صحیح طریقے سے میڈیکل کرنا، اسے کینیڈا جانا ہے‘

وہ ڈاکٹر مجھے علیحدہ کمرے میں لے گیا اور کہنے لگا تمہاری امی نے کہا ہے کہ تمہارا صحیح طریقے سے میڈیکل کروں۔

اس نے مجھے غلط طریقے سے چھونا شروع کیا۔ پہلے میرے پستان دبائے پھر میری شرم گاہ کو چھوا۔

میں خاموش رہی۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے شکایت کی تو میرا میڈیکل خراب ہو جائے گا اور میں اپنے شوہر کے پاس کینیڈا نہ جا سکوں گی۔

اس واقعہ کو 29 سال ہو گئے ہیں اور میں اب تک پاکستانی مردوں سے ڈرتی ہوں۔ میں پاکستان جانا چاہتی ہوں لیکن ڈرتی ہوں کہ کوئی اور شیطان مل گیا تو کیا ہو گا ’

میں نے مریضہ کو بتایا کہ ہر عورت کا حق ہے کہ وہ ڈاکٹری معائنے کے وقت اپنے ساتھ ایک نرس یا سہیلی رکھے۔

ہمیں اپنے لڑکوں کی ایسی تربیت کرنی ہے کہ وہ مرد بن کر عورتوں کی عزت کریں ان کا احترام کریں۔

ہمیں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں مرد اور عورتیں جانیں کہ ہم دونوں زندگی کا گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں پہیے برابر ہوں گے تو گاڑی پٹڑی پر چلتی رہے گی برابر نہ ہوئے تو پٹڑی سے اتر جائے گی۔

پاکستان اور تیسری دنیا کے کئی اور ممالک میں وہ گاڑی کب سے پٹڑی سے اتری ہوئی ہے۔ اب ہمیں مل کر اسے واپس پٹڑی پر ڈالنا ہے۔

مردوں اور عورتوں کو دوست بن کر ایک نیا معاشرہ تخلیق کرنا ہے۔
ڈیئر رابعہ اور تحریم! مجھے آپ سے دوستی اور آپ کی ایک دوسرے سے تخلیقی دوستی پر فخر ہے۔

آپ کا مخلص دوست
خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments