درخت کٹ گیا لیکن وہ رابطے ناصرؔ


انسان نے ہمیشہ اپنے فائدے اور آسائش کے لئے قدرت کی کسی بھی شے کے ساتھ ظلم کرنے سے گریز نہیں کیا۔ ہزاروں برسوں سے انسان نے زمین اور زمین پر بسنے والی دوسری مخلوقات کو اپنے تابع کیا ہوا ہے۔ ہر شے کسی نہ کسی طرح اس اشرف مخلوق کے فائدے کا کام کر رہی ہے مگر پھر بھی یہ دکھاوے کا عقل مند دراصل ناسمجھ انسان اسی شے کا دشمن بن جاتا ہے۔ انسان کو وقتی فائدے کے لئے خود غرضی کا اتنا شکار ہو جاتا ہے کہ حواس کھو بیٹھتا ہے۔ انسان کی انہی حرکات کی وجہ سے آج کرۂ ارض طرح طرح کی آلودگیوں کا شکار ہے۔

درختوں کے بغیر زمین پر زندگی کا وجود ایک خواب ہے۔ درخت ہی ہیں جو ہمیں آکسیجن مہیا کرتے ہیں جس سے ہماری سانسیں بحال رہتی ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر لیتے ہیں۔ درختوں کی اہمیت محض یہاں تک محدود نہیں بلکہ ان کے مزید ان گنت فوائد بھی ہیں۔ ہمیں تازہ ہوا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔

ماحول کو خوب صورت بنانے میں درخت کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اور ان کی خوب صورتی دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ہر کوئی ان کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ ہمارے ماحول کو چہچہاہٹ سے مسرور کرنے والے خوب صورت پنچھی بھی درختوں میں آشیانے بناتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے کتنی خوبصورتی سے یہ تعلق بیان کیا ہے کہ

درخت کٹ گیا لیکن وہ رابطے ناصرؔ

تمام رات پرندے زمیں پہ بیٹھے رہے

نورا والن کا کہنا ہے کہ درخت انسانوں کی روحوں کے لئے سکون کا اہتمام کرتے ہیں۔ والن کی اس بات میں کوئی شبہ بھی نہیں ہے ۔ درحقیقت انسان کا سب سے بہترین دوست درخت ہی تو ہے۔ ایک صاحب نے تو کیا کمال لکھا کہ جناب درختوں سے نرم برتاؤ رکھیے، یہ دنیا کو بچانے میں مصروف ہیں۔

بہرحال یہ ساری باتیں وہی لوگ ہی اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے کبھی درختوں سے کوئی تعلق رکھا ہو، کبھی وہ درختوں کے سائے میں بیٹھے ہوں، کبھی تنہائی میں جن نے درختوں سے رازوں کا تبادلہ کیا ہو، جن نے کبھی درختوں کو پانی دیا ہو، جنہوں نے ان کے میٹھے بولوں کو سنا اور محسوس کیا ہو، بلکہ وہ جو سینے دل رکھتے ہوں۔

اس خوب صورت مخلوق کے ساتھ ہماری محبت کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہو رہے ہیں اور ہمارے ماحول کی دل فریبی کہیں کھوتی چلی جا رہی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق گزشتہ بارہ برسوں میں ہم دنیا کے چھیالیس فیصد درختوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ سالانہ دنیا پندرہ ملین سے زائد درختوں سے محروم ہو رہی ہے۔

ہمارے پیارے وطن پاکستان میں تو صورتحال اور زیادہ گمبھیر ہے۔ متعلقہ اداروں کا ماننا ہے کہ کسی بھی علاقے کا تیس سے تینتیس فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے مگر ہمارے ہاں موجودہ جنگلات ہمارے کل رقبے کے پانچ فیصد سے بھی کم ہیں۔ اس صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم مزید درخت لگائیں مگر ہم ہیں کہ پہلوں کا بھی قتل عام کر رہے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے اپنی  نسلوں کے لئے مشکلات پیدا کرنے میں مگن ہیں۔

پچھلے دو چار دنوں (مارچ دو ہزار اکیس کے آخری حصے ) سے ایک دردناک خبر سننے کو مل رہی ہے۔ خبر یہ ہے کہ ملتان جسے آموں کا شہر یا آموں کا گھر جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے، میں آم کے ہزاروں جوان درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ وجہ یہ بتلائی جا رہی ہے کہ وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ یہ ویسے کم بری خبر نہیں ہے۔

پاکستان نہ صرف اپنی ضرورت کے لئے آم پیدا کرتا ہے بلکہ دوسرے ممالک کو بیچ کر اس سے زرمبادلہ بھی کماتا ہے۔ آموں کی کل پیداوار کا چوتھا حصہ یعنی پچیس فیصد ملتان پیدا کرتا ہے۔ کورونا سے پہلے پاکستان نوے ملین ڈالر سالانہ آموں سے کما رہا تھا جس میں ملتانی آموں کا بڑا کلیدی کردار تھا۔

بات یہ نہیں ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہ تعمیر کی جائیں، بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے ماحول کا نقصان کر کے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments