حکومت مریم نواز سے ڈرتی کیوں ہے؟


مریم نواز کو تفتیش کے لئے حاضر ہونے کا حکم دینے سے لے کر اس کی واپسی تک کا سارا عمل احتساب بیورو کی ناقص کارکردگی اور طے شدہ ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس عمل میں نیب نے خود اپنے ہاتھوں اپنی رسوائی کا اہتمام کیا ہے۔ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال اور ذمہ داروں کو اپنے طریقہ کار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ انہیں کسی سیاسی جماعت کے نمائندوں کی طرح بیان بازی کی بجائے عملی قانونی پہلوؤں پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی یہ قومی ادارہ اپنی خود مختاری اور ضرورت کا جواز فراہم کرسکے گا۔

احتساب بیورو نے 18 مارچ کو چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کو اچانک طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سے قبل انہیں گزشتہ سال اگست میں پیشی پر بلایا گیا تھا لیکن مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے یہ سماعت ملتوی کردی گئی۔ اس کے بعد نیب نے طویل خاموشی اختیار کرلی۔ گزشتہ دنوں نیب کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں مریم نواز کی ضمانت منسوخ کرنے کی استدعا کی گئی تھی کیوں کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف بیان دیتی ہے۔ ابھی یہ معاملہ ہائی کورٹ کے زیر غور ہے اور عدالت نے نیب کی درخواست پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا کہ اچانک مریم کو پھر سے تفتیش کے لئے طلب کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔

یہ فیصلہ اگر خالص میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا تو نیب کو آج یہ فیصلہ واپس لینے کی شرمندگی برداشت نہ کرنا پڑتی۔ نیب کے عہدیدار اپنے اختیارات کو ایک خاص مقصد سے ملک کے اپوزیشن سیاسی لیڈروں کے خلاف تندہی سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ خاص طور سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت احتساب بیورو کے نشانے پر ہے۔ پارٹی کے صدر شہباز شریف سمیت متعدد لیڈر بدستور نیب کی حراست میں ہیں۔ بعض دوسرے لیڈر طویل مدت تک قید رہنے کے بعد ضمانتوں پر رہا ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کسی کے خلاف ابھی تک بدعنوانی کے کسی بھی مقدمہ میں فیصلہ سامنے نہیں آ سکا۔ نیب پراسیکیوٹرز کو خاص طور سے اعلیٰ عدالتوں میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ملک کی ہائی کورٹس کے علاوہ سپریم کورٹ بھی متعدد مواقع پر نیب کی کوتاہیوں اور ناقص شواہد و ہوم ورک کی نشاندہی کرچکی ہے۔ اس کے باوجود احتساب بیورو کی کارکردگی اور طریقہ کار میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔

اس وقت نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال ہیں۔ وہ گیارہ برس تک سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں اور مارچ 2007 میں دو ہفتے کے لئے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔ اس کے باوجود ان کی قیادت میں احتساب بیورو کا امیج قانون پر عمل کرنے والے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے طور پر نمایاں نہیں ہوسکا۔ انہوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کے بدعنوانی کے سیاسی ایجنڈے کو اپنا مطمح نظر بنا رکھا ہے۔ ادارے کے فیصلے سیاسی عواقب کے حامل ہوتے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال کو بدقسمتی سے سیاست دانوں ہی کی طرح بیانات دینے، میڈیا کو جمع کر کے اپنی کارکردگی کے بارے میں لیکچر سنانے اور یہ دعویٰ کرنے کا شوق رہتا ہے کہ ان کی وفاداری قانون اور پاکستانی عوام کے ساتھ ہے۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتے اور ملک و قوم کی دولت چوری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کسی سے مرعوب نہیں ہوں گے۔

حالانکہ اعلیٰ عدالتوں میں طویل مدت تک بطور جج خدمات سرانجام دینے کے بعد جسٹس جاوید اقبال کو بخوبی علم ہونا چاہیے تھا کہ کسی آئینی ادارے کے سربراہ کو بیان بازی کی بجائے کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے عدالتوں کے جج صرف سماعت کے دوران قانونی موشگافیوں پر اظہار خیال ہی کے لئے زبان کھولتے ہیں، اسی طرح آئینی اداروں کے ذمہ دار سربراہان اور دیگر عہدیداروں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی مباحث کا حصہ بننے، کسی حکومت کے ایجنڈے کی تحسین کرنے یا پبلک پلیٹ فارم پر بیان بازی سے گریز کریں۔ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے فرائض انجام دیں۔ یہ فیصلہ عدالتوں پر چھوڑ دیں کہ وہ مقدمات پر کیا فیصلہ سناتی ہیں۔ بطور جج جسٹس جاوید اقبال سے یہ توقع بھی کی جاتی تھی کہ وہ شواہد پیش کرنے اور قانونی دلائل دینے میں نیب کی صلاحیت کو بہتر بنائیں گے۔ وہ اس مقصد میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔

2019 کے شروع میں ایک خاتون نے نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال پر نازیبا حرکات کا الزام لگایا۔ اس بارے میں ویڈیو اور آڈیو سامنے آنے کے بعد بھی جاوید اقبال نے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود کو تحقیقات کے لئے پیش نہیں کیا۔ اور نہ ہی چئیر مین نیب کے عہدے کا تقدس قائم رکھنے کے لئے شفاف تحقیقات تک اس عہدہ سے رخصت پر جانے یا علیحدہ ہونے کا اقدام کیا۔ اس کے برعکس نیب پراسیکیوٹر نے چئیر مین نیب پر جنسی طور سے ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی خاتون اور ان کے شوہر کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔ اس رویہ سے واضح ہو گیا تھا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ادارے کی شہرت و نیک نامی کی بجائے اس اختیار و طاقت سے غرض ہے جو بطور چئیر مین نیب انہیں حاصل ہے۔ وہ کسی قیمت پر اس سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں ہیں خواہ ان کی ذات کے بارے میں کیسے ہی شبہات پیدا ہوں۔ ایسے شخص کی سربراہی میں نیب کا امیج داغدار ہی ہو سکتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کرپشن کے الزام میں نیب کا نشانہ بننے والے سیاسی لیڈر نیب کو حکومت وقت کا آلہ کار اور اس کے طریقوں کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان نے سیاسی لیڈروں کی کرپشن کو منشور کے طور پر اختیار کیا ہے۔ سیاسی لیڈر کے طور پر یہ ان کا حق تھا تاہم یہ ملک کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی الزامات و بیانات اور حقیقی صورت حال میں فرق کریں اور صرف میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں۔ اور کسی کی حیثیت و عہدہ کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ لیکن اگر احتساب بیورو کا چیئرمین، عمران خان کے منتخب ہوتے ہی، ان سے ملاقات کے لئے پہنچے گا اور ان کے سیاسی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنی خدمات پیش کرے گا تو وہ خود اپنی اور ادارے کی نیک نامی کو داؤ پر لگائے گا۔ جاوید اقبال اور نیب کو اس وقت اسی صورت حال کا سامنا ہے۔ مریم نواز کو پیشی کے لئے بلانا خالصتاً سیاسی اقدام تھا اور اس پیشی کو منسوخ کرنے کا اعلان بیک وقت نیب اور حکومت کی بدحواسی کا اعلان ہے۔

نیب کی طرف سے 26 مارچ کو پیشی منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جو بیان جاری کیا گیا ہے وہ کسی صورت ایک آئینی ادارے کے شایان شان نہیں ہے۔ اس میں سیاسی بیان کا لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے، بے خوف ہو کر عوام کے مفاد میں ڈٹے رہنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ نیب کا کہنا ہے کہ ’نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور مفاد عامہ کے پیش نظر اصولی طور سے طے کیا گیا ہے کہ مریم نواز کی نیب لاہور میں کل ( 26 ) کی پیشی ملتوی کردی جائے۔ نئی تاریخ کا اعلان مناسب وقت پر کیا جائے گا‘ ۔ بیان میں اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ مریم کی سابقہ پیشی کے موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کا الزام مسلم لیگ (ن) پر عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جان بوجھ کر نیب کے دفتر پر پتھراؤ کیا گیا اور اس کے کام میں رخنہ ڈالا گیا جو خلاف قانون اقدام ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نیب قانون کی شق 31 (اے ) کی رو سے نیب کی تحقیقات میں عدم تعاون کرنے، رخنہ ڈالنے یا گمراہ کرنے کی صورت میں 10 سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ان قانونی اختیارات کے باوجود نیب کی جانب سے تاحال انتہائی صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ ۔ حیرت ہے کہ ملک میں کورونا کی تیسری لہر ایک ہفتہ پہلے مریم نواز کو پیشی کا نوٹس بھیجتے وقت بھی آئی ہوئی تھی اور حکومت سماجی دوری کی ہدایات پر عمل کرنے کا تقاضا کر رہی تھی۔ تاہم کورونا پابندیوں کے عذر کے ساتھ ہی ’مفاد عامہ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے نیب نے دراصل اپنی مجبوری اور خوف کو واضح کیا ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اعلان کیا تھا کہ پیشی کے موقع پر اظہار یک جہتی کے لئے ان کے کارکن مریم نواز کے ساتھ جائیں گے۔ ایک روز پہلے حکومت پنجاب سے نیب دفتر کے علاقے کو ریڈ زون قرار دینے اور پولیس کے علاوہ رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ کروایا گیا۔ البتہ ایک روز بعد ہی کسی سیاسی تصادم کے خوف سے پیشی کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔

یہ فیصلہ احتساب بیورو کے اس خود ساختہ ماٹو کے برعکس ہے کہ وہ لوٹ مار کرنے والے کسی شخص کو نہیں چھوڑے گا۔ مریم نواز اگر کسی سنگین مالی بدعنوانی میں ملوث ہے اور نیب کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں تو اسے چھوٹ دے کر نیب دراصل اپنے فرائض سے روگردانی کا سبب بنا ہے۔ یہ فیصلہ صرف انتظامی فیصلہ یا نیب کے طریقہ کار کا معاملہ نہیں ہے۔ حکومت وقت جس طرح اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائی میں نیب کے ہر اقدام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے، نیب کی پسپائی دراصل حکومت کے سیاسی خوف و پریشانی کا اظہار بھی ہے۔ امن و امان قائم رکھنا کسی عدالت یا نیب جیسے ادارے کا کام نہیں ہے لیکن حکومت کسی دباؤ کے بغیر کام کرنے کا ماحول فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ نیب کا اعلامیہ بظاہر حکومت وقت کی کارکردگی سے مایوسی کا اظہار بھی ہے کہ نیب آفس کو ریڈ زون قرار دینے کے باوجود مریم کی پیشی ملتوی کی گئی ہے۔

تحریک انصاف اور حکومت کے نمائندے پی ڈی ایم میں اختلافات کے بعد مسلسل یہ خبر دیتے رہے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد منتشر ہو چکا ہے۔ اب حکومت دل جمعی سے اپنے سیاسی منشور پر عمل کرے گی۔ تاہم بتوسط نیب مریم نواز کی پیشی کے موقع پر متوقع سیاسی پاور شو کو ٹالنے کی کوشش، دراصل حکومت کی بے بسی، نا اہلی اور خوف کا اظہار ہے۔ پی ڈی ایم کی سیاسی ریلی شاید حکومت کو اتنا نقصان نہ پہنچا پاتی جتنا نقصان پیشی کو ملتوی کرنے کے اعلان سے ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments