انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں: انڈیا اقوام متحدہ میں سری لنکا کے خلاف قرارداد پر کیوں خاموش رہا؟


اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں منگل کو سری لنکا سے متعلق ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اس قرارداد کو متعدد ممالک کی جانب سے برطانیہ نے پیش کیا تھا۔

اس قرارداد کا نام اور مقصد ‘سری لنکا میں مفاہمت، احتساب اور انسانی حقوق کو فروغ دینا‘ تھا اور اس میں سری لنکا میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس قرارداد پر ووٹنگ کے دوران چین اور پاکستان نے اس کی مخالفت کی تاہم انڈیا نے ووٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔

تاہم اس حوالے سے اب تمام قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ انڈیا نے ایسا کیوں کیا؟

اصل میں سری لنکا میں تمل برادری کا مسئلہ انڈین ریاست تمل ناڈو کی سیاست کا ایک اہم ترین موضوع ہے۔ اس سال اپریل میں تمل ناڈو میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونا ہیں۔ بی جے پی بھی ان انتخابات میں شریک ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعت انڈیا کے اقوام متحدہ کے ووٹ کو ان انتخابات سے منسلک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

دوسری جانب خارجہ امور کے ماہرین ووٹ نہ دینے کو انڈیا کی ‘اپنا خطہ پہلے‘ کی پالیسی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں خارجہ امور داخلی سیاست پر سبقت لے گئے ہیں اور مودی حکومت نے یو پی اے دور کی پالیسی تبدیل کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سری لنکا اور پاکستان کے بڑھتے تعلقات کیا انڈیا کے لیے نیا چیلنج ہو سکتے ہیں؟

سری لنکا: مندروں میں جانوروں کی قربانی پر پابندی

’سمجھتا تھا کہ سری لنکا نے تشدد پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔۔‘

مگر کیا یہ پہلی بار ہے کہ انڈیا نے ایسا کیا ہو؟ اور کیا یو پی اے دور میں انڈیا کی پالیسی مختلف تھی؟

https://twitter.com/UN_HRC/status/1374592070317391872

یہ قرارداد پیش کیوں کی گئی؟

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن سے وابستہ ستیامورتی انڈیا اور سری لنکا کے تعلقات کے ساتھ ساتھ تمل ناڈو کی سیاست کے ماہر ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انڈیا نے سری لنکا کے خلاف قرارداد پر ووٹ نہ ڈالا ہو۔ 2014 میں بھی ایسی ایک قرارداد آئی تھی اور تب بھی انڈیا نے ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ 2015 اور 2019 میں جو قراردادیں آئیں ان میں سری لنکا کی حکومت کی مرضی اور دیگر ممالک کی رضامندی شامل تھی۔ اس لیے ان پر ووٹنگ نہیں ہوئی۔‘

جب 2015 میں راجا پکشے حکومت سری لنکا میں اقتدار میں آئی تو انھوں نے اقوام متحدہ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ملک میں خانہ جنگی کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حکومتی سطح پر آزادانہ اور منصفانہ تفتیش کروائیں گے۔ مگر کئی سال سے ایسا نہیں ہو سکا۔

یہی وجہ ہے کہ یہ قرارداد دوبارہ لائی گئی ہے۔

کیا انڈیا نے ماضی میں ایسی قرارداد کی کبھی حمایت کی؟

ستیامورتی کا کہنا ہے کہ انڈیا نے سنہ 2012 میں ایسی ہی ایک قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالا تھا۔ اس قرارداد میں سری لنکا کی خانہ جنگی کے دوران حکومتی افواج کی جانب سے تمل ٹائیگرز کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیم کے ہاتھوں آزادانہ تفتیش کی بات کی گئی تھی۔‘

حکومتی سطح پر لوگوں کا خیال ہے کہ 2012 اور 2021 کی قراردادوں میں بنیادی فرق ہے۔ 2012 کی قرارداد میں ایک انٹرنیشنل تفتیشی ٹیم کا مطالبہ تھا جس میں ججز اور وکلا شامل تھے۔ اس مرتبہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو تفتیش کے لیے کہا گیا ہے یعنی اقوام متحدہ کی اس کونسل کو پولیس کا کام سونپا گیا ہے۔

ستیامورتی کا خیال ہے کہ یہ ایک اہم عنصر ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے انڈیا نے ووٹنگ سے اجتناب کیا ہو۔ انڈیا اس طریقے کی تفتیش سے متفق نہیں اور ایسی کارروائی کو کسی ایک ملک کے خلاف تصور کرتا ہے۔

تو کیا انڈیا نے یو پی اے دور کی پالیسی تبدیل کر لی؟

خارجہ امور کی سینیئر صحافی اور انڈین اخبار ٹائمز آف انڈیا کی سفارتی مدیر اندرانی باگچی کہتی ہیں کہ ‘انڈیا کا 2012 کا فیصلہ داخلی سیاست کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ یہ خارجہ امور کا فیصلہ نہیں تھا۔ اس وقت تمل ناڈو میں کانگریس، ڈی ایم کے پارٹی کے ساتھ مل کر یو پی اے اتحاد میں برسر اقتدار تھی اور ڈی ایم کے نے کانگریس پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ سری لنکا کے خلاف ووٹ ڈالیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ 2014 میں جب قرارداد آئی تو یو پی اے وفاق میں بھی اقتدار میں تھی۔ یہ تجویز این ڈی اے کے وفاق میں حکومت بنانے سے پہلے آئی تھی۔

اندرانی باگچی کہتی ہیں کہ دو سال میں یو پی اے کو سمجھ آ گیا تھا کہ سری لنکا کے خلاف ووٹ ڈالنے سے انڈیا کو نقصان ہی ہوگا فائدہ نہیں۔ اور پھر 2021 میں وفاقی حکومت نے یو پی اے کا 2014 والا فیصلہ ہی دہرایا ہے۔

انڈیا کے اس فیصلے کے پیچھے کیا وجہ ہے؟

اندرانی باگچی کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے فیصلے کے پیچھے چند اہم وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ انڈین حکومت نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ داخلی سیاست کو انڈیا کی خارجہ پالیسی پر حاوی نہیں ہونے دے گی۔

دوسرا یہ کہ انڈیا کی خارجہ پالیسی میں خطے کے ہمسایہ ممالک کو فوقیت دینے کی روایت رہی ہے۔ انڈیا کے سری لنکا سے متعدد مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی، سیاسی تعلقات اور لوگوں میں ثقافتی روابط ہیں۔ سری لنکا کے خلاف ووٹ ڈال کر انڈیا کے مفادات اور ان روابط کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ انڈیا کبھی نہیں چاہے گا کہ سری لنکا مکمل طور پر چین کے کیمپ میں چلا جائے کیونکہ اس سے انڈیا کی سکیورٹی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

مودی

ووٹ نہ ڈال کر انڈیا نے اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ سری لنکا جب کبھی اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی فیصلہ کرے گا تو اس میں انڈیا کے مفادات کا خیال رکھے گا۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ انڈین حکومت کے خیال میں سری لنکا میں رہنے والی تمل برادری کا مسئلہ ان کا اندرونی مسئلہ ہے۔ انڈیا اس حوالے سے سری لنکا کو مشورہ دے سکتا ہے کہ وہ آئین کی بالادستی کا خیال رکھے۔ انڈیا کے خیال میں ایسے معاملات بین الاقوامی دباؤ سے حل نہیں ہوتے۔

اسی لیے انڈیا نے ووٹ سے پہلے اپنے بیان میں کہا کہ ’سری لنکا میں انسانی حقوق کے حوالے سے انڈیا دو باتوں کا خیال رکھتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ تمل برادری کو ہماری حمایت حاصل ہے اور ہم ان کے لیے برابری، وقار، امن اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور دوسری بات سری لنکا کے اتحاد، استحکام اور علاقائی ہم آہنگی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ دونوں معاملات ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں اور ان دونوں کا خیال رکھ کر ہی سری لنکا کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔‘

انڈین حکومت کا کہنا تھا کہ ‘ہم سری لنکا کی حکومت سے کہیں گے کہ وہ مفاہمت کی جانب بڑھیں اور تمل برادری کی توقعات پر توجہ دیں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ عوام کی آزادی اور انسانی حقوق محفوظ ہیں۔‘

یاد رہے کہ سری لنکا کے آئین میں 13ویں ترمیم میں تمل برادری کو برابری کے حقوق دینے کا ذکر ہے۔

چوتھی وجہ انڈین حکومت کی خارجہ پالیسی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اگر کسی ایک مخصوص ملک سے متعلق کوئی قراردار ہیش کی جاتی ہے تو انڈیا ووٹنگ میں حصہ نہیں لیتا ہے۔ ایسا صرف 2012 میں ہوا تھا جب انڈیا نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔

ستیا مورتی بھی اسی وجہ پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ اندرانی کا خیال ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے کا تمل ناڈو کے ریاستی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں۔

تمل ناڈو کی سیاست

بہت سے ماہرین انڈیا کی پوزیشن کو تمل ناڈو کے انتخابات سے جوڑ رہے ہیں۔ ڈی ایم کے، کے رہنما خود یہ کہہ رہے ہیں کہ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ اسمبلی انتخابات کی وجہ سے لیا ہے۔

ریاست میں بی جے پی، اے آئی اے ڈی ایم کے، کے ساتھ ملک کر انتخابات لڑ رہی ہے اور کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے ریاست میں بی جے پی کو نقصان پہنچے گا۔

مودی

سنیچر کو ووٹنگ سے تین دن قبل کانگریس کے رہنما پی چدمبرم نے کہا تھا کہ انڈیا کو قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالنا چاہیے۔

ادھر ڈی ایم کے، سٹالن نے بھی ووٹ کے حق میں اپیل کی تھی اور انڈیا کی جانب سے قرارداد میں ووٹ نہ ڈالنے کے باوجود ڈی ایم کے کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

مگر ستیا مورتی کا خیال ہے کہ اس سے بی جے پی کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘سری لنکا کی تمل برادری کا معاملہ تمل ناڈو کے انتخابات میں اہم نہیں۔‘

’سنہ 2009 میں جب سری لنکا میں خانہ جنگی عروج پر تھی تب بھی ڈی ایم کے اور کانگریس نے انتخاب میں کئی سیٹیں جیتی تھیں۔ اس وقت کانگریس وفاق میں بیٹھی تھی اور اس وقت جس اتحاد نے سری لنکا میں تمل برادری کا معاملہ اٹھایا وہ انتخابات ہار گئے تھے۔‘

سینیئر صحافی ٹی آر رام چندرن کا کہنا ہے کہ ‘حکومت کے اس فیصلے سے ڈی ایم کے کو فائدہ ہو سکتا ہے اور ڈی ایم کے ہی اس معاملے کو زور و شوار سے اٹھا بھی رہی ہے۔‘

فی الحال تمل ناڈو کی حکمران جماعت اے آئی اے ڈی ایم کے کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp