کتنی برساتوں کے بعد !


داخلی معاملات ہوں یا خارجی، وہ حقیقت میں ایسے نہیں ہوتے جیسے نظر آتے ہیں اور سطحی طور پر چیزوں کو دیکھنے والے بالعموم فریب کھا جاتے ہیں۔ یہی لوگ اس امر پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں کہ یوم پاکستان پر نریندر مودی نے پاکستانی وزیراعظم کے نام خط میں پاکستانی عوام کو مبارک دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے مابین قریبی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے دشمنی ختم کرنے اور اعتماد کی فضا پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔

اس نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم اور پاکستانی عوام کے لیے نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ پہلی نظر میں یہ ایک اچھی پیش رفت ہے، مگر اسے تاریخی اور سفارتی تناظر میں دیکھنا زیادہ مناسب ہو گا۔ یہ معمول کی بات ہے کہ خاص خاص مواقع پر تہنیت کے پیغام بھیجے جاتے اور نیک خواہشات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پاکستان، بھارت کے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ پر مبارک باد کے پیغام بھیجتا ہے۔ یہی رسم امریکی یوم آزادی پر بھی ادا کی جاتی ہے۔ یوم پاکستان پر اس بار بنگلہ دیش کی وزیراعظم نے بھی تہنیتی پیغام بھیجا ہے جو ایک خوشگوار تبدیلی کی جلوہ آرائی ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے بچھڑے ہوئے پچاس برس ہونے کو آئے ہیں۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے اور تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے خوشگوار تعلقات کا سفر شروع کرنا چاہیے جس کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

بھارت کے لہجے میں تبدیلی محسوس تو ہو رہی ہے جو حقیقی اور حالات کے جبر کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ نریندر مودی نے 5 اگست 2019 ء کو جس مکاری سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی شناخت ختم کر کے، اسے بھارت میں ضم کر کے اور اسے لاکھوں فوجیوں کے حصار میں ایک جیل خانہ بنا دینے کے بعد نسل کشی کا بہیمانہ عمل شروع کر دیا ہے جس نے عالمی ضمیر کے اندر کچھ کسک پیدا کی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اس ظلم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے حوالے سے قرارداد منظور کی ہے۔

یورپی یونین بھی خاصی مضطرب ہے۔ عالمی طاقتوں کو احساس ہو چلا ہے کہ اگر تنازع کشمیر جاری رہتا ہے، تو ان کے لیے بھارت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا محال ہوتا جائے گا۔ امریکہ میں جو نئی انتظامیہ برسراقتدار آئی ہے، اس نے واضح اشارے دیے ہیں کہ بھارت کو اپنی روش میں تبدیلی لانا ہو گی اور پاکستان کے ساتھ روابط معمول پر لانا ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عشروں بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے چینی صدر سے ٹیلی فون پر بات کی ہے اور دو طرفہ تعلقات زیربحث آئے ہیں۔

امریکہ اگرچہ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی اور ٹیکنالوجیکل طاقت سے خوفزدہ ہے۔ وہ اس کے گرد جاپان، آسٹریلیا، ویت نام اور بھارت کی مدد سے حصار تعمیر کر رہا ہے اور اس اسٹریٹجک وار فیئر میں اسے بھارت کا تعاون ہر قیمت پر درکار ہے، لیکن وہ کسی قدر توازن کی پالیسی پر کاربند رہنا چاہتا ہے۔ اسے افغانستان سے انخلا کے لیے پاکستان کی حمایت اور عملی تعاون مرکزی اہمیت رکھتا ہے، چنانچہ وہ پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرنے کا خواہش مند نظر آتا ہے۔

اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین جن کا شرق اوسط میں بھی اثر و رسوخ ہے، وہ کشمیر کا تنازع جلد سے جلد طے کرانے پر کام کر رہے ہیں۔ درپردہ کوشش ہو رہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادتوں کو کشمیر کے بٹوارے پر کسی طرح رضامند کر لیا جائے۔ مطلب یہ کہ پاکستان کی طرف کشمیر کا جو حصہ ہے، وہ پاکستان میں ضم کر لیا جائے اور مقبوضہ کشمیر کے بھارت میں انضمام پر عالمی طاقتوں کی توثیق ہو جائے۔ باخبر حلقے بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ پاکستان میں انہی خطوط پر کام آگے بڑھ رہا ہے۔

اسی مقصد کے لیے گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف برسراقتدار لائی جا چکی ہے۔ وہاں کی اسمبلی نے متفقہ قرارداد کے ذریعے گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہاں یہ مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی گلگت بلتستان کو نمائندگی دی جائے تاکہ وہاں کے عوام آئینی حقوق سے فیض یاب ہو سکیں۔

سیاسی تجزیہ نگار اس حقیقت کی بھی واضح نشان دہی کر رہے ہیں کہ جولائی 2021 ء میں آزاد جموں و کشمیر میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں تحریک انصاف کی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی یقینی بنائی جائے گی۔ تب وہاں سے بھی منتخب اسمبلی یہی مطالبہ کرے گی کہ ریاست آزاد جموں و کشمیر کو صوبے کا درجہ دیا جائے۔ اگر وزیراعظم عمران خاں کی حکومت قائم رہتی ہے، تو دونوں اسمبلیوں کا مطالبہ حقیقت میں ڈھال دیا جائے گا اور بعد ازاں یہ دونوں صوبے پاکستان کا حصہ قرار پائیں گے۔

اس طے شدہ پروگرام کے نفاذ کی خاطر نریندر مودی نے اپنا لب و لہجہ تبدیل کیا ہے اور نیک خواہشات کا پیغام بھیجا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرق اوسط کے بعض دوست ممالک بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔ وہ کشمیر کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین تجارت کے فروغ پر زور دیں گے۔ ان کی طرف سے یہ بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ پاکستان بھارت کو سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ دیا جائے۔

بھارت نے 5 اگست 2019 ءکے اقدام کی تنسیخ کی بات کی ہے نہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم ہوا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کی زندگیاں گل کر دینے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، تو ہم یوم پاکستان پر بھیجے ہوئے خط پر امن کی آشا کا راگ کیوں الاپ رہے ہیں؟ یہی کوشش 2007 ء میں جنرل پرویز مشرف نے بھی کی تھی، مگر انہیں منہ کی کھانا پڑی تھی۔ یوم پاکستان کے موقع پر پورے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے پرچموں کی جو بہار دیکھنے میں آئی ہے اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے فضا دیر تک گونجتی رہی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی ہی برساتوں کے بعد بھی خون کے دھبے نہیں مٹ سکیں گے۔ آزادی کا شعلہ دفن کیا جا سکتا ہے نہ نئی تاریخ کی تخلیق روکی جا سکتی ہے، البتہ بنگلہ دیش کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کرنے کا وقت آن پہنچا ہے اور ہمیں اپنی غلطیوں کی معافی سے دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments