منظر بدل گئے، پس منظر بدل گئے


عالمی سیاست کی صورت تبدیل ہو رہی ہے۔ تبدیلی نہ بری ہوتی ہے نہ اچھی۔ یہ ایک اضافی کیفیت ہے۔ کسی کو تبدیلی راس آ جاتی ہے اور کسی کو تباہ کر دیتی ہے۔

پوسٹ نائن الیون دنیا ایک دوسری دنیا تھی اور اب جبکہ امریکہ نے افغانستان سے مکمل انخلا کا فیصلہ کر لیا ہے تو دنیا کی سیاست کے خدوخال بھی تبدیل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

جنوبی ایشیا ہی کی بات کر لیں تو دو موٹی موٹی باتیں سامنے آتی ہیں۔ جنرل باجوہ کا حالیہ بیان جس میں امن کی آشا چھلک رہی تھی اور امن کشمیر کے مسئلے کے ہوتے ہوئے تو ممکن نہیں گویا بین السطور کشمیر کا ایک کوئی ممکنہ حل تھا جو کہ شاید لائن آف کنٹرول کی حیثیت تبدیل کرنا بھی ہو سکتا ہے، ممکنہ حل کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن شاید کشمیر کا مسئلہ اب حل ہونے کے قریب ہے۔ کیا، کیوں اور کیسے، یہ وقت بتائے گا۔

حالیہ ماسکو مذاکرات میں جو صورتحال نظر آ رہی ہے وہ یہی ہے کہ افغانستان آج بھی اندرونی طور پہ منقسم ہے۔ روس، چین اور امریکہ کی تگڑم، پاکستان کے ساتھ مل کے افغانستان میں امن کی کوشش کر تو رہے ہیں لیکن یہ کام بہت مشکل ہے۔

طالبان اور ان کے نظریات کے ساتھ اگر انھیں ایک طاقت تسلیم کر لیا جاتا ہے تو بہت سارے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جب تک افغانستان میں داخلی امن اور مضبوطی نہیں آئے گی، خطے میں امن کی آشا، دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتی۔

افغانستان ایک ایسا مضمون ہے، جس میں ہمارے ہاں بہت سوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور ان کی انگلیاں افغانوں کی نبض پر ہیں اگر وہ چاہیں تو افغانستان دوبارہ ایک پر امن ملک بن سکتا ہے مگر پاکستان کی پرخلوص کوششوں کے بغیر جو بھی پیشرفت ہو گی وہ ادھوری ہی رہے گی۔

دوسری طرف پاکستان کی طرف سے انڈیا کے لیے بظاہر جو دوستی کا ہاتھ بڑھایا جا رہا ہے اس کا وقت عالمی سیاست کے حساب سے چاہے کس قدر مناسب ہی کیوں نہ ہو لیکن انڈیا کے اندرونی حالات اس وقت بہت عجیب ہیں۔

شاید انڈیا اور پاکستان کی 74 برس کی تاریخ میں انڈیا میں مسلمانوں کے لیے اتنے برے حالات کبھی نہیں رہے ہیں۔

نریندر مودی کے حالیہ دورہ بنگلہ دیش کے دوران جو ہنگامے دیکھنے میں آئے اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ خطے میں مودی کا کردار مسلمان مخالف ولن کے طور پر ہی سامنے آیا ہے۔ افغانستان کی حالیہ ماسکو کانفرنس میں بھی انڈیا کو نظر انداز کیا گیا۔

مودی کی کشمیر، مسلمان اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ مخصوص پالیسیوں اور ان کا سیاسی ماضی اس تاثر کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ کیا پاکستان، جہاں انڈیا مخالف جذبات نصاب میں پڑھائے گئے، مودی جیسے سربراہ کی موجودگی میں انڈیا سے اچھے تعلقات بڑھا کے اندرونی انتشار کو دعوت تو نہیں دے رہا؟

خارجہ پالیسی کی بنیاد قومی مفاد ہوتی ہے۔ جہاں تک میری نظر کام کرتی ہے مجھے یوں لگتا ہے کہ نہ تو حکومتی پارٹی، نہ اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی اپوزیشن قومی مفاد کی تعریف جانتے ہیں۔

ابھی تک ہماری خارجہ پالیسی، کشمیر پر قائم تھی۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا ذکر کیا جاتا تھا اور ’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘ جیسی باتیں کی جاتی تھیں۔ راتوں رات، سارے نظریات، خیالات اور کشمیر کا باب کیسے لپیٹ لپاٹ کر دفن کیا جا سکتا ہے؟

افغانستان

طالبان اور ان کے نظریات کے ساتھ اگر انھیں ایک طاقت تسلیم کر لیا جاتا ہے تو بہت سارے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جب تک افغانستان میں داخلی امن اور مضبوطی نہیں آئے گی، خطے میں امن کی آشا، دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتی

امن، بھائی چارہ اور معاشی ترقی کے لیے سافٹ بارڈرز کی موجودگی، یہ سب بہت اچھے مقاصد ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ یہ تمام باتیں اگلے انتخابات میں عوام کے سامنے رکھی جائیں، سالہا سال انھیں جو سبق پڑھائے گئے اب ان سے پیچھے ہٹنے یا پالیسی بدلنے کا وقت آیا ہے تو اس فیصلے میں عوام کی شمولیت بھی ہونی چاہیے یعنی جس پارٹی کی جیت ہو، اس کی خارجہ پالیسی کے منشور کو دیکھتے ہوئے نئے فیصلے لیے جائیں۔

گو ایسا نہ ہوتا ہے، نہ کیا جائے گا لیکن جو کچھ ماضی میں ہوتا آیا ہے ہم آج اسی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ اب ماضی سے سبق لینے کا وقت ہے۔

مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ صرف انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہی نہیں بلکہ افغانستان اور روس کی آزاد کردہ ریاستوں چین اور ایران کے آپس میں اور پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار ہوں گے تب ہی خطے میں دیرپا امن آئے گا۔

یہ تمام ممالک معاشی، سماجی، تاریخی اور جغرافیائی طور پر آپس میں کچھ ایسے منسلک ہیں کہ ان کے تمام مسائل کا حل باہمی اچھے تعلقات میں پوشیدہ ہے۔

اگر ان مقاصد کے لیے امن کی کوششیں کی گئیں تو ہمیں فائدہ بھی ہو گا اور اگر اس کوشش کا مقصد صرف نیٹو افواج کا انخلا ہے تو ظاہر ہے ان کے جانے کے بعد حالات وہی ہو جائیں گے جو سنہ 1989 میں روسی فوج کے انخلا کے بعد ہوئے۔

یہ امن اگر عوام کے اندر سے ابھرنے والی سوچ سے آئے گا تو زیادہ دیرپا اور حقیقی ہو گا لیکن اگر بون کانفرنس کی طرز پر ایک طرفہ فیصلے کیے جائیں گے اور امن کا یہ عمل ہمیشہ کی طرح بند کمروں میں بیٹھ کر میزوں پر مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو میری ناقص رائے میں یہ جلد بازی میں اٹھائے ہوئے ماضی کے اقدام کی طرح خطے کے امن کو ایک گورکھ دھندہ بنا کر رکھ دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).