کچھ گوادر کے لوگوں کے بارے میں


\"\"

گوادر میں ڈھنگ کا ہسپتال نہیں ہے۔ بجلی ہے تو وولٹیج کامسئلہ ہے۔ موبائل کمپنیوں کے نیٹ ورک خیر سے بہت ڈھیلے ڈھالے ہیں۔ سکول پتہ نہیں کدھر ہیں کتنے ہیں کیسے ہیں۔ شہر میں پانی کا شدید مسئلہ ہے۔ شہری حکومت جو سہولتیں اپنےشہریوں کو فراہم کرتی ہے وہ خیر سے ساری ہی غیر موجود قسم کی حالت میں ہیں۔

ایک بہت اچھا ہسپتال بن چکا ہے ابھی فنکشنل نہیں ہوا۔ سننے میں یہ آیا کہ اسے پرائیویٹ سیکٹر کو دیا جا رہا ہے۔ پانی کامسئلہ جب بھی پیدا ہوتا ہے۔ سرکار میں کرنٹ دوڑ جاتا ہے اجلاس ہوتے ہیں۔ جب خود بخود ہی مسئلہ حل ہو جاتا ہے یا مدہم پڑ جاتا ہے تو اجلاس ختم ہو جاتے منصوبے الماری میں رکھ دیے جاتے ہیں۔

بجلی کی وولٹیج ہو موبائیل کمپنیوں کے نیٹ ورک ہوں پانی ہو یا ہسپتال یہ سب حل ہو ہی جانے ہیں۔ گوادر کی ترقی کے نعرے ہی بے معنی ہیں اگر یہ مسائل موجود رہتے ہیں۔ یہ مسئلے موجود تو ہیں لیکن ان کو آخر حل ہونا ہی ہے۔

گوادر میں لوگ رہتے ہیں۔ مقامی لوگ جنہیں وفاقی حکومت نے تو بھلائے رکھا صوبائی حکومتوں نے بھی نظراندااز ہی کیا ہمیشہ۔ پاکستان نے عمان سے گوادر واپس خریدا تھا۔ گوادر کے لوگوں کے ساتھ سلوک ایسے ہی کیا گیا جیسے وہ شاید جھونگے میں ملے تھے۔

گوادر میں مقامی آبادی کی معاش کچھ محدود سے کاموں سے متعلق ہے۔ آجکل گوادر میں مہمان آتے ہیں ان سے متعلق ہوٹلنگ ٹرانسپورٹ اور متعلقہ سہولتیں فراہم کرنا ایک نیا کام ہے مقامی آبادی کے لئے۔ اس کام میں بھی گوادر واسیوں کا حصہ کم ہے۔ یہاں پر پرانے کاموں میں ایران سے تجارت اور گوادر فشری سے متعلقہ کام ہی ذیادہ تر آبادی کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔ گوادر فشری جو سب سے بڑا روزگار کا ذریعہ ہے اسے اب پرانی جگہ سے شفٹ کیا جانا ہے۔

نئی جگہ فراہم تو ساحل کے پاس ہی کی جا رہی ہے۔ وہاں کام کتنا جم سکے گا یہ ایک سوال ہے۔

گوادر اردگرد کے علاقوں سے ہی نہیں اب بلوچستان بھر سے لوگ آ کر آباد ہو رہے ہیں۔ گوادر کے مقامی باشندے ان کے ہاتھوں میں بھی معاشی پریشر محسوس کریں گے۔ بلوچستان سے ایک بڑی شفٹنگ کے باوجود گوادر میں جلد ہی غیر بلوچ اکثریت میں ہو جائیں گے۔ شاید وہ وقت بھی جلدی آ جائے جب پاکستانیوں سے زیادہ یہاں غیر ملکی باشندے رہنے لگیں۔ گوادر میں ترقی کا جو ماڈل اپنایا جا رہا ہے اس کا یہ لازمی نتیجہ بہرحال ہو گا۔

\"\"

پرانے گوادر کا بڑا حصہ بھی یہاں سے منتقل ہو جائے گا۔ بس پھر تاریخ کی کتابوں میں پرانے گوادر کا ذکر ہو گا۔ اس منتقلی کے ساتھ بہت سی پرانی عمارتیں جن میں سے اکثر سے عمان کا طرز تعمیر جھلکتا ہے مٹ جائیں گی۔ یہ ہونا ہے ہو کر رہے گا۔ گوادر کے مقامی لوگ اس ترقی کے نام پر بہت کچھ اور ان لوگوں میں سے کچھ شاید اپنا سب کچھ ہی کھونے جا رہے ہیں۔ ان کے پرانے کام روزگار تک برقرار نہیں رہیں گے۔

گوادر کی زیادہ تر آبادی کے پاس بس ایک زمین ہے۔ یہ زمین اب بہت قیمتی ہو گئی ہے۔ زمینوں کے قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ابھی ہو گا۔ یہ لوگ زمینیں اب نہیں تو بعد میں بیچ ہی دیںگے۔ بہت سے لوگ تو پہلے ہی بیچ بھی چکے ہیں۔ زمین فروخت کرنے کے بعد ان لوگوں کے پاس کچھ وقت کے لئے نقد رقم وافر ہو جائے گی۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ کافی لوگ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کو مختلف قسم کے کاموں میں لگائیں گے اور اس رقم سے بھی ہاتھ دھوئیں گے۔

گوادر میں تعلیم اداروں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ تعلیم اگر کوئی میسر تھی تو اس کا کوئی معیار نہیں تھا۔ تعلیمی حوالے سے نوکریوں کے لئے بھی گوادر کے مکران کےلوگ مقابلے کے قابل نہیں ہیں۔ جب پاکستان بھر سے سرمایہ دار گودار آئیں گے تو یہ کاروباری میدان میں بھی ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ مقامی آبادی کے حوالے سے یہ ایک بحرانی کیفیت ہے۔

ہمارے ملکی قوانین تمام پاکستانیوں کو ملک بھر میں آنے جانے رہنے اور کاروبار کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان قوانین کی موجودگی میں ہم گوادر کے لوگوں کو مارکیٹ اور وقت کے حوالے کر رہے ہیں۔

\"\"

اب یہاں پھر ہم سب پاکستانیوں کے لئے ایک سوال ہے کہ کیا ہم نے صرف گوادر کی زمین ہی خریدی تھی یا یہاں کے لوگوں کو بھی اپنایا تھا انہیں پاکستانی سمجھا تھا۔ اس سوال کا جو بھی جواب ہمارے پاس ہے یا ہماری سرکار کے پاس ہے وہی ہمارا مستقبل ہے۔

گوادر مکران کے لوگوں کے لئے یہ صورتحال ایک چیلنج ایک بحران ہے، ہمارے لئے بھی۔ یہی بحران اپنے ساتھ نئے امکانات بھی لے کر آ رہا ہے۔ یہ امکان اس جواب کی صورت میں ہے جو ہمارے پاس اس صورتحال کے لئے موجود ہے۔

یاد رہے ہم نے گیس کے مسئلے پر بلوچستان کو ناراض کیا۔ ایک بری ڈیل کی۔ اب پھر ہمیں ایک موقع ملا ہے کہ ہم گوادر والوں کو ترقی کے اس سفر میں شریک کریں انہیں تکنیکی تعلیم دیں کچھ کاروباری مواقع انہی کے لئے کھلے چھوڑ دیں۔ انہیں اتنی سہولیات فراہم کریں کے وہ ترقی کے سفر میں نمایاں ہو کر آگے بڑھیں۔ ان کے لئے صحت کی اچھی سہولیات مستقل اور مفت فراہم کریں۔ بہت اچھی تعلیم مفت دیں۔ کاروبار کے لئے آسان بلا سود قرض فراہم کریں۔ نوکریوں میں ان کا کوٹہ مقرر کروائیں۔ ان کو ٹیکس میں چھوٹ فراہم کر دیں۔

ہم ایسا کر پائے تو آئندہ پاکستان میں کہیں بھی لوگ کسی میگا پراجیکٹ کے شروع ہونے کا انتظار کیا کریں گے۔ ورنہ ترقی کے بڑے منصوبے کے ساتھ مقامی لوگوں کی آہیں ہی بلند ہوں گی۔

ہمیں شاعر کی بیان کر دہ اس کیفیت سے ہر حال میں بچنا ہے۔

یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دیے تو دیے دل بجھے جا رہے ہیں

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments