کتاب خواں کہاں کھو گیا


مولانا کی مشہور کتاب ”تذکرہ“ ان کے اسلوب خاص کا بہت عمدہ نمونہ ہے۔ مکتبہ میری لائبریری والوں نے سن 1960 میں اس کتاب کا پیپر بیک ایڈیشن شائع کیا تھا۔ یہ کتاب میرے گھر میں موجود ہوتی تھی۔ سکول کے زمانہ میں کئی بار کی کوشش کے باوجود میں اسے مکمل نہ پڑھ سکا لیکن اس کے آخر پر جو طویل ذاتی قصیدۂ مدحیہ تحریر کیا گیا ہے وہ ضرور پڑھا تھا اور اس وقت پسند بھی آیا تھا۔ گزشتہ دنوں کسی ضرورت کے تحت اس کتاب کو دیکھنا پڑا تو اس فقرے کو پڑھ کر دنگ رہ گیا:

”سورج نے کہا: دو لاکھ میل دور ہوں، قطب شمالی سے روشنی اتری اور بولی، ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ نوے ہزار میل طے کرتی ہوں۔ مگر آنکھوں نے کہا یہ تو تار نگاہ کی پہلی منزل ہے۔“ ۔ (تذکرہ۔ میری لائبریری ایڈیشن۔ ص 294 )

قطب شمالی سے روشنی کے اترنے کا مطلب تو میں آج بھی نہیں سمجھ پایا لیکن سورج کا زمین سے فاصلہ نو کروڑ میل سے کچھ زیادہ ہے۔ اسے کسی صورت سہو کتابت بھی نہیں کہا جا سکتا۔

روایت کیا جاتا ہے کہ پہلا ایڈیشن مولانا کی رضا اور منشا کے بغیر شائع ہوا تھا۔ وہ اس پر نظر ثانی کرنا چاہتے تھے لیکن اس کا موقع نہ مل سکا۔ بعد ازاں ممتاز محقق مالک رام صاحب نے ”تذکرہ“ کا تحقیقی ایڈیشن شائع کیا جو تین مرتبہ طبع ہو چکا ہے۔ مالک رام صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے پیش نظر مصنف کا ذاتی نسخہ تھا جس میں بہت سے مقامات پر اصلاحیں کی گئی تھیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اس ایڈیشن میں بھی یہ عبارت بعینہ موجود ہے ( ص 325 ) اور مالک رام صاحب نے اس پر کوئی نوٹ لکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔

مولانا غلام رسول مہر مرحوم مولانا آزاد کے بہت ارادت مند تھے اور ان کی بیعت بھی کی ہوئی تھی۔ لیکن مہر صاحب مولانا آزاد صاحب کی سیاست سے اختلاف رکھتے تھے اور ”انقلاب“ اخبار میں اس کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے اپنے نام مولانا آزاد کے خطوط کا مجموعہ بھی شائع کیا۔ اس میں 25 جنوری 1937 کا ایک خط ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں مہاتما گاندھی نے ہندی ہندوستانی کا مسئلہ اٹھایا ہوا تھا اور پورے ملک میں دیو ناگری رسم الخط کو رائج کرنے کی مہم برپا کر رکھی تھی۔ اسی زمانے میں صوبہ سرحد میں جو حکومت بنی اس نے وہاں ہندی گرمکھی سکولوں کی گرانٹ بند کر دی تھی۔ اس مسئلہ پر مولانا آزاد مہر صاحب کو خط میں لکھتے ہیں :

”اس عقل فروش نے وحدت زبان و رسم الخط کا راگ گا کر مٹھی بھر سکھوں کے گرل اسکولوں کی سرکاری اعانت بند کر دینی چاہی ہے، مگر اتنی واضح بات سامنے نہ آئی کہ اگر ٹھیک انھی دلائل کی بنیاد پر کل کو بہار، یوپی، مدراس، آسام اور بمبئی میں ہندو اکثریت نے ناگری رسم الخط کو سرکاری قرار دے دیا اور اردو رسم الخط والے سکولوں کو سرکاری اعانت سے محروم کر دیا تو ان کا ہاتھ پکڑنے والا کون ہے؟“ (نقش آزاد۔ ص 23۔ 122 )

اس خط میں مولانا کے دلائل سے مجھے مکمل اتفاق ہے لیکن ناگری رسم الخط جاری کرنے کے خواہاں ہندو اکثریتی صوبوں میں مدراس کا نام پڑھ کر حیرت ہوئی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں جو زبانیں رائج ہیں (تامل، تلیگو، ملیالم، تولو اور کنڑ) ان کا رسم الخط ناگری نہیں ہے اور وہ گاندھی جی کی ناگری لپی کو رائج کرنے کی کوششوں کی سخت مخالفت کر رہے تھے۔ ان زبانوں نے آج تک ناگری رسم الخط کو نہیں اپنایا نہ کبھی ہندی کو سرکاری زبان تسلیم کیا ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ مولانا آزاد نے محض زور کلام میں مدراس کو بھی شامل کر لیا کیونکہ یہ تو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ رسم الخط کے مناقشے کے تمام پہلووں سے واقف نہ ہوں گے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا مہر صاحب نے بھی اس پر کوئی وضاحتی نوٹ لکھنا پسند نہیں کیا۔

مندرجہ بالا مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو میں بالعموم تحریر لکھ کر اشاعت سے پہلے کسی کو پڑھانے کا رواج نہیں ہے۔ صاحبان قلم شاید ایسے افراد کو دوست بنانا پسند نہیں کرتے جو ان کے لکھے پر آزادانہ رائے دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ مدیران کرام نام پڑھ کر سوچ لیتے ہیں کہ جو لکھا ہے وہ درست ہی لکھا ہو گا۔ اور جہاں تک قارئین کا تعلق ہے تو گمان ہوتا ہے کہ وہ ہر حرف نوشتہ و مطبوعہ کو مذہبی متون کے مانند جوش عقیدت میں آنکھیں بند کر کے ہی پڑھتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک بات کہی جاتی ہے کہ مغرب میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے جی چاہتا ہے کہ دو چار مثالیں وہاں سے بھی پیش کر دی جائیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مغربی دنیا میں بھی اشاعت و طباعت کا معیار رو بہ زوال ہے۔ اتنی بے کار تحریریں شائع ہوتی ہیں کہ کال پوپر اسے اشاعتی دھماکہ کہا کرتا تھا۔ سن 2019 میں ہالینڈ کے مشہور اشاعتی ادارے سپرنگر نے میرے پسندیدہ فلسفی ماریو بنگے کی صد سالہ سالگرہ پر

Mario Bunge: A Centenary Festschrift

شائع کی۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں مرتب نے لکھا ہے کہ کاپی ایڈیٹنگ تمام اشاعتی اداروں کے لیے معمول کی کارروائی ہوتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اس لیے بلا شبہ کتاب میں ٹائپنگ کی غلطیاں، نامکمل حوالہ جات، خراب اوقاف و رموز اور غیر واضح جملے دکھائی دیں گے۔

امریکہ کا ایک بہت مشہور اشاعتی ادارہ ہے :
Scarecrow Press

اس ادارے کا خاص امتیاز علمی اور حوالہ جاتی کتابوں کی اشاعت ہے۔ ان کی ایک بہت مشہور سیریز ہے ہسٹاریکل ڈکشنری۔ تقریباً ہر ملک کے نمایاں تاریخی واقعات کو بیان کرتی یہ ڈکشنری موجود ہے۔ ”ہسٹاریکل ڈکشنری آف پاکستان“ کے مصنف شاہد جاوید برکی ہیں۔ برکی صاحب ورلڈ بینک میں بہت اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اس ڈکشنری کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور میرے سامنے یہی تیسرا ایڈیشن ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس کتاب حوالہ میں متعدد غلطیاں موجود ہیں۔ مثلاً مغل بادشاہ ہمایوں کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ قنوج کی جنگ میں شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد افغانستان چلا گیا تھا۔ پاکستان کے شاید ہر میٹرک پاس بچے کو بھی یہ معلوم ہو گا کہ ہمایوں افغانستان نہیں بلکہ ایران گیا تھا۔ ہمایوں شکست کے بعد لاہور ضرور آیا تھا لیکن یہاں اس کا بھائی مرزا کامران حکمران تھا۔ ہمایوں نے کابل جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اس نے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد ہمایوں سندھ اور راجستھان کے علاقے میں کئی برس تک بھٹکنے کے بعد ایران چلا گیا تھا۔ اس کے بیٹے اکبر کی پیدائش بھی سندھ کے علاقے میں ہوئی تھی۔

معلوم نہیں کہ یہ کتاب پروفیسر کے کے عزیز صاحب کی نظر سے گزری تھی یا نہیں کیونکہ اس میں مثلاً 23 مارچ اور 14 اگست کی تاریخوں والی اغلاط موجود ہیں جن کا رونا انھوں نے اپنی کتاب ”مرڈر آف ہسٹری“ میں رویا ہے۔ سن 1956 کے آئین کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کا نفاذ دو مارچ کو ہوا حالانکہ دو مارچ کو سکندر مرزا نے آئین کی منظوری دی تھی اور اس کا باقاعدہ نفاذ 23 مارچ کو ہوا تھا۔ اس کے علاوہ چودھری محمد علی کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی وفات لاہور میں ہوئی حالانکہ وہ کراچی میں فوت ہوئے تھے اور وہیں مدفون ہیں۔ پتا نہیں کہ اتنے بڑے اشاعتی ادارے نے اس کتاب کو چھاپنے سے پہلے اس کی ریفرنگ کروائی تھی یا نہیں۔

مسلم فلسفے پر لکھنے والوں میں ماجد فخری کا نام بہت نمایاں ہے۔ موصوف لبنانی نژاد تھے اور امریکن یونیورسٹی آف بیروت میں فلسفہ کے پروفیسر رہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھاتے رہے۔ مسلم فلسفہ کی تاریخ پر ان کی کتاب بہت مقبول ہے جس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ یہ کتاب برسوں سے پنجاب یونیورسٹی کے مسلم فلسفہ کے پرچے کے نصاب میں شامل ہے۔ ابن رشد پر اس کی کتاب دیکھتے ہوئے مجھے اس جملے پر چونکنا پڑا:

Ahmed Ibn Hanbal. This famous tradition-monger, whose Musnad is one of the six canonical collections of Hadith… ) AVERROES: HIS LIFE, WORKS AND INFLUENCE. 2001)

ایک بہت نامور محدث کو tradition۔ monger کہنا مناسب دکھائی نہیں دیتا لیکن اس جملے میں واقعاتی غلطی یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل کی مسند کو کبھی بھی صحاح ستہ میں شمار نہیں کیا گیا۔

علامہ اقبال نے طالب علم کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

علامہ اقبال کی اس نصیحت کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ہر کوئی صاحب کتاب بن گیا ہے اور اس ہجوم میں کتاب خواں کہیں گم ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments