پاکستان کی پانچ بڑی سیاسی پارٹیوں کی الگ الگ خواہشات


وطن عزیز کی سیاسی جماعتوں کے مختلف نعرے اور مختلف پروگرام ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی کارکردگی کیا ہوتی ہے ۔وہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ تاہم لمحہ موجود میں یہ جماعتیں کیا چاہتی ہیں ، اس پر ایک مختصر تحریر پیش خدمت ہے۔

1۔ پی ٹی آئی

پی ٹی آئی اس وقت برسراقتدار جماعت ہے اور اس کے بانی و وزیراعظم عمران خان کی شدید ترین خواہش ہے کہ ان کے پاس اتنے اختیارات آ جائیں کہ وہ نون لیگ اور پی پی کی کرپٹ قیادت کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی پر چڑھائیں۔ ملک میں کوئی حکومت مخالف آواز بلند نہ ہو۔ ہر طرف پھانسی گھاٹ قائم ہوں جہاں لائنیں لگا کر حکومت مخالف کرپٹ لوگوں کو سولی چڑھایا جائے۔

تاہم اگر کوئی ان کا حامی تھوڑا بہت کرپٹ ہو تو اسے برداشت کیا جا سکتا ہے بلکہ چھوٹی موٹی وزارت و مشاورت بھی دی جا سکتی ہے۔ خان صاحب نے اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے حوالے سے اپنے ماضی کے موقف سے رجوع کر لیا ہے۔ اب ان کے خیال میں کرپٹ صرف وہ سویلین ہوتے ہیں جو ان کے مخالف ہیں۔ لہٰذا ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ خان صاحب کے خیال میں ترقی کا واحد راستہ یہی ہے۔

2۔ نون لیگ

ن لیگ کے قائد نواز شریف یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ہر طرف آئین و قانون کی پھریرے لہرانا شروع کر دیں۔ طاقتور ادارہ سیاست سے اپنا ہاتھ کھینچ لے۔ داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو یک دم تبدیل کر دیا جائے۔ پارلیمنٹ مضبوط و خودمختار ہو جائے۔ تاہم اس منزل کے آنے تک جماعت میں جمہوری اقدار کا فروغ ضروری ہے نہ ہی پارلیمنٹ کے اجلاس میں جانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اراکین پارلیمنٹ بھی فرماں بردار بچے بن کر ان کے پیچھے چلیں اور زیادہ چوں چراں نہ کریں۔

3۔ پی پی پی

پیپلز پارٹی سندھ میں وفاق کی سیاست کرنے والی سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ آصف زرداری کا سیاسی انداز خود بھی خوش رہو اور دوستوں کو بھی خوش رکھو چاہے اس خوشی مین اداروں کا ستیا ناس ہو جائے،  کے ماٹو کے گرد گھومتا ہے۔ کرپشن کے بے شمار مقدمات اور بیڈ گورننس کی وجہ سے پی پی سندھ تک محدود ہو گئی تھی تاہم آج کے حالات میں جبکہ عمران خان کو لانے والے ان کی بری کارکردگی سے بے زار ہو چکے ہیں اور نئے آپشن پر سوچ رہے ہیں ۔ زرداری صاحب اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے وفاق میں ایک اور باری لینے کے خواہش مند ہیں۔

4۔ جماعت اسلامی

پاکستان کی سب سے زیادہ منظم اور پڑھی لکھی جماعت یہ چاہتی ہے کہ پاکستانی عوام مندرجہ بالا تینوں جماعتوں کو چھوڑ کر اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں تاہم جماعت اسلامی عمران خان کی طرح پاکستان کے تمام تر مسائل کا ذمہ دار سیاسی جماعتوں کو سمجھتی ہے اور طاقتور ادارے کے سیاسی کردار پر تنقید کی بجائے آسان ہدف یعنی سیاسی جماعتوں پر ہی چاند ماری کر کے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے۔

5۔ جے یو آئی

مولانا فضل الرحمان کا مسئلہ بھی پی پی جیسا ہے یعنی اپنے ووٹ بینک کو محفوظ رکھتے ہوئے سسٹم میں زیادہ سے زیادہ جگہ حاصل کرنا۔ تاہم مولانا کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ہمیشہ آزاد سیاست کے حامی رہے ہیں اور کبھی کسی آمر کے اتحادی نہیں بنے۔ اس حوالے سے مولانا جمہوری جدوجہد میں ہمیشہ صف اول میں رہے ہیں۔ فی الوقت وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کو قبل از وقت رخصت کر کے نئے آزادانہ انتخابات کرائے جائیں تاکہ ان کے لئے کوئی سپیس بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments