ظاہر و باطن کا الجبرا


کچھ عرصہ قبل ملک میں دھرنے اور ہڑتالوں کا رواج عام تھا کہ جس کو بھی اپنے حقوق کے لئے کچھ کرنا یا کہنا ہوتا وہ اپنے جیسوں کا ایک ہجوم اکٹھا کرتا اور کسی اہم سی جگہ پہ بیٹھ جاتا کہ یار لوگ دیکھ سکیں اور کھل کے ہمارے ملکی نظام کا کھوکھلا پن سامنے آ سکے۔ ایسے ہی مظاہروں میں ’ینگ ڈاکٹرز‘ کا احتجاج بھی نمایاں رہا۔ ڈاکٹر حضرات اپنے حقوق اور پیشہ ورانہ ڈھانچے کی اصلاح کے لئے برسرپیکار تھے اور ان میں کچھ یقیناً بیکار بھی ہو گئے ہوں گے۔

کسی موقعے پہ وہ عوامی ہمدردی کھو بیٹھے تھے کیونکہ مسیحا جب مسیحائی نہیں کرے گا تو اپنے مقام پہ قائم نہیں رہ پائے گا۔ تب ڈاکٹرز عموماً عوام کی طعن و تشنیع کا نشانہ تو بنتے ہی تھے اور کبھی کبھی کسی ڈاکٹر کو عوامی مقام پہ زد وکوب بھی کر دیا جاتا تھا۔

اسی دور میں ہم تین دوست کسی کام کے سلسلے میں ایک بازار میں تھے۔ اتفاق سے تینوں مختلف جگہوں پہ مختلف اشیاء دیکھ رہے تھے تو رائے لینے کے لئے دوسرے کو آواز دینی پڑی۔ حسب معمول اور انجانے میں دوسرے دوست نے تیسرے دوست کو ’ڈاکٹر صاحب‘ کہہ کے آواز دی تو بازار میں موجود جس جس نے آواز سنی اس کی آنکھیں ڈاکٹر صاحب کی تلاش میں سرگرداں نظر آئیں۔ ڈاکٹر صاحب کو تو جان کے لالے پڑ گئے ، وہیں سے با آواز بلند بولے کہ میں وہ ڈاکٹر نہیں ہوں یہ لوگ مجھے پیار سے ڈاکٹر کہتے ہیں۔ مشکل سے جان بچی اس دن۔

ظاہر اور باطن کا ایک دوسرے سے میل کھانا ، ایک دوسرے جیسا دکھنا اور ایک دوسرے کی تائید کرنا کس قدر ضروری ہے۔ ظاہر جتنا بھی اچھا کر لیں لیکن اگر باطن صاف نہ ہوا تو ظاہری صفائی وقتی فائدہ تو دے گی لیکن جب پول کھلے گا تو فقط نیچے نہیں گرائے گی بلکہ پستیوں کی  پاتال میں گرا دے گی۔ اور اسی طرح باطن کی طہارت اگر ظاہر پہ ظہور پذیر نہیں ہوتی تو باطن کو ابھی مزید نکھارنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر اور باطن کی ہم آہنگی سمجھانے کے لئے بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن اگر الجبرے سے مدد لیں تو یہ فارمولا ساری بات سمجھا دیتا۔

الجبرا پڑھنے والے جانتے ہیں کہ منفی اور مثبت ، یہ دونوں علامتیں بہت اہم ہیں اور ان کے مابین ضرب کا عمل کرتے ہوئے حاصل جواب کے ساتھ کیا علامت آئے گی۔ مثلاً منفی اور مثبت یا مثبت اور منفی کو اگر آپس میں ضرب دیں تو جواب میں منفی کی ہی علامت آئے گی۔ اس کے برعکس اگر مثبت کو مثبت سے ضرب دیں تو جواب میں مثبت کی علامت آئے گی اور کمال بات یہ ہے کہ اگر منفی کو منفی سے آپس میں ضرب دیں تو بھی جواب میں مثبت ہی کی علامت آئے گی۔ یعنی جہاں ظاہر باطن ایک جیسا تھا وہاں مثبت جواب آیا اور جہاں دونوں میں فرق تھا وہاں منفی جواب آیا۔

جیسا کے کتابوں میں عمر بن خطابؓ کا فاروق اعظم بننے کا واقعہ ملتا ہے۔ اندر باہر کے منفی پہ جب نور ہدایت کی ضرب پڑی تو کیسا مثبت جواب آیا کہ اماں عائشہؓ  نے اپنے حجرے میں اپنی قبر کے لئے رکھی ہوئی جگہ بھی دے دی اور دوسری جانب کی تو کئی ایک مثالیں ہیں مثلاً شیطان ابلیس ہی کو لے لیں۔ ظاہر و باطن کے فرق نے ہمیشہ کے لئے مردود کر دیا۔

کوئی بھی عام سا شخص چوراہے پہ کھڑا ہو کر ٹریفک نہیں کنٹرول کر سکتا۔ کوئی بھی اس کی بات نہیں مانے گا کہ وہ کون سا ٹریفک کا کوئی ہرکارہ ہے کیونکہ اس کے ظاہر پہ وردی نہیں ہے۔ اگر کوئی عام شخص وردی پہن لے لیکن ٹریفک کنٹرول کے ضابطوں سے واقف نہ ہو تو ٹریفک کو کنٹرول کی بجائے مزید پیچیدہ بنا دے گا۔

اسی لئے دانائے راز بتاتے ہیں کہ نیک دکھنے میں اور نیک ہونے میں فرق ہے۔ جب دکھنے والی صورت اندر موجود صورت سے میل کھا جائے گی تو قوی امکان ہے کہ ایسا مثبت جواب ملے گا کہ سب رنگ رنگے جائیں گے اور اللہ سے بہتر کس کا رنگ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments