”ولی کا دفتر“ کدھر ہے؟


مجھے جرمنی آئے ہوئے کچھ ہفتے ہوئے تھے اور ریسرچ کا کام ابھی آغاز میں تھا کہ ایک دن مجھے ایک دوسرے ساتھی کی ای میل آئی کہ اگلے ہفتے اس دن میٹنگ یے اور یہ ”Willy ’s Office“ مطلب ولی (و کے نیچے زیر) کے دفتر میں ہو گی۔

میں نے جواباً کہا ٹھیک ہے لیکن میں اس کے بعد وہ ولی کا دفتر تلاش کرنا شروع ہو گیا کیونکہ مجھے نہیں پتا تھا کہ ”ولی“ کون ہے اور اس کا دفتر کہاں ہے؟

پہلے تو میں نے اپنے ادارے کی ساری ویب سائٹ چھانی کہ وہاں لکھا ہو گا کیونکہ یہاں ہر چیز ویب سائٹ پر موجود ہوتی لیکن وہاں نہ مل سکی پھر میں نے اپنے ادارے کے ساری فلورز پر سارے دفاتر کے سامنے تختیاں دیکھی وہاں بھی نہ ملی۔

اب سوال یہ ہے کہ میں اس ای میل بھیجنے والے سے واپس کیوں نہیں پوچھ رہا تھا کہ یہ ”ولی کا دفتر“ کدھر ہے؟ وہ اس لیے کہ اس نے جس انداز سے ای میل لکھی تھی اس میں یہ بخوبی طے تھا کہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں اور ویسے بھی مجھے آفس جوائن کیے ہوئے کافی دن گزر چکے تھے اس لیے مجھے یہ سب پتا ہونا چاہیے تھا۔

خیر جب یہ ”ولی“ کا پتا نہ چل سکا اور میٹنگ کا دن بھی قریب آ گیا تو میں نے آخر ایک دوسرے ساتھی سے پوچھ ہی لیا کہ یار مجھے یہ بتاو یہ ”ولی“ کا دفتر کدھر ہے؟

میرے یہ سوال پوچھنے پر پہلے تو اس کی شکل حیران پریشان والی ہو گئی اور پھر 2 منٹ تک وہ کھلکھلا کر ہنستا رہا اور میں شرمندہ ہوتا رہا کہ آخر میں نے کیا غلط پوچھ لیا۔

اور پھر اس نے مجھے پوچھا کہ ہم سب یہاں کس پروفیسر کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور تمارے باس کا کیا نام ہے؟

میں نے جواباً پوچھا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے؟ آپ کو بھی پتا ہے کہ ہم Prof. Wilhelm Stork کے ساتھ کام کر رہے۔

وہ بولا ”یار تو“ ولی ”وہی ہے نا اور اسی کے دفتر میں ہو گی میٹنگ“ ۔

اور پھر پریشان ہونے اور ہنسنے کی باری میری تھی کہ جس ولی کو میں پورے ادارے اور ویب سائٹس میں ڈھونڈتا رہا اور وہ تو میرا اپنا پروفیسر ہے۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا مجھے یہ کیوں نہیں پتا تھا؟

اس کا جواب ہے کہ میں یہ تصور بھی نہیں کر رہا تھا کہ ہم اپنے پروفیسر (جو کہ باس بھی ہوتا) اور عمر میں بھی بہت بڑا ہوتا ہے، کو ایسے بے تکلف ( (informal طریقے سے بھی پکار سکتے۔

حالانکہ نام سے بھی ظاہر ہے کہ ”Wilhelm“ کی مختصر حالت ”Willy“ ہو سکتی لیکن کیونکہ ہم ”سر“ اور ”میڈم“ کے عادی ہوتے تو ہمارے ذہن میں بھی یہ بات نہیں جاتی کہ ہم اپنے پروفیسر کو یا سنئیر کو ایسے پکار سکتے۔

اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہ لوگ اپنے سے بڑے یا سنئیر یا استاد کی عزت نہیں کرتے، آپ سفر کے دوران دیکھیں اگر کوئی بوڑھا یا بیمار آ جائے تو اس کو اٹھ کر جگہ دیتے اور ایسا کرتے ہوئے بعض اوقات جس شخص کے لیے آپ اٹھ رہے ہوتے وہ مائنڈ بھی کر جاتا کہ ”میں اتنا بوڑھا بھی نہیں ہوں“ ، خاص طور پر خواتیں۔

لیکن یہاں عزت کا اور اخلاق کا پیمانہ آپ کا پروفیشنل کام اور کمنٹمنٹ ہے اور وہی زیادہ عزت کرنے والا سمجھا جاتا جو اپنا کام صحیح کرتا نہ کہ صرف سر اور میڈم کہنا۔

بعد میں مجھے میرے پروفیسر نے خود بھی کہا کہ آپ مجھے میرے نام کے ساتھ پکارو کیونکہ جب تک آپ میرے ساتھ بے تکلف نہیں ہوں گے آپ صحیح کام نہیں کر سکیں گے، آپ اپنی پریشیانیوں اور مشکلات کو شیئر نہیں کر سکیں گے اور جس کے نتیجے میں آپ کا کام متاثر ہو گا۔ اس لیے بہتر کام کرنے اور نتیجہ خیز کام کرنے کے لیے یہاں لوگ اپنے باس کے ساتھ بے تکلف ہو کر بات کرتے۔

ہمارے ہاں عزت اور اخلاقیات کو عموماً الفاظ اور محض ظاہری باتوں سے ماپا جاتا ہے اور جو جتنا زیادہ خوش آمد اور تعریف کرتا ہے اسے یہ سمجھا جاتا کہ یہ بہت اخلاق والا اور عزت کرنے والا ہے۔ ہمارے سرکاری و پرائیویٹ دفاتر میں ”سر“ اور ”میڈم“ کا کانسپٹ اتنا مضبوط ہے کہ اگر کوئی اس کے بغیر بات کرے تو وہ نہ صرف بد اخلاق سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کے خلاف کارروائی بھی ہوتی اس بات سے قطع نظر کہ وہ اپنا کام جو اس کی بنیادی ذمہ داری ہے وہ کر رہا ہے یا نہیں۔

عموماً وہ لوگ ترقی پاتے ہیں جو کام تو بے شک نہ کریں لیکن اپنے الفاظ کے ساتھ اپنے باس، اپنے سنئیر اور اپنے پروفیسر کو خوش کر لیں۔ اس بات کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہم خدا نخواستہ اپنے کسی بڑے کے ساتھ کوئی بد تمیزی کریں لیکن مجموعی طور پر معیار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ : اس کے بعد میں نے بھی اپنے پروفیسر کو ”ولی“ ہی کہنا شروع کر دیا۔ لیکن مجھے پتا ہے کہ : ”Dont Try it at Home“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments