بزرگ خواجہ سرا علیشا رضوی کی دکھ بھری داستان‎



سید محسن علی شاہ رضوی عرف علیشا رضوی پچپن سالہ بیمار اور بے یارو مدد گار خواجہ سرا ہیں۔ جن سے خاندان والوں نے بچپن میں ناتا توڑ لیا تھا اور معاشرے نے کبھی قبول ہی نہیں کیا۔ چند ماہ قبل شوگر کی وجہ سے علیشا کی ایک ٹانگ کاٹ دی گئی جس کی وجہ سے مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ اس وقت علیشا اللہ سے عزت کی موت کی دعا مانگ رہی ہیں کیونکہ نہ حکومت ان کی فریاد سنتی ہے اور نہ ہی این جی اوز مدد کو آتی ہیں۔

اپنی کہانی سناتے ہوئے علیشا نے بتایا کہ ان کے والد صاحب کا تعلق گجرات شہر سے ہے۔ دینی تعلیم کے لئے ایران گئے وہاں ایک خاتون پسند آ گئیں۔ ان سے شادی کر کے انھیں پاکستان لے آئے۔

والدین نے خوشگوار ازدواجی زندگی گزاری۔ خدا نے پانچ بچوں کی نعمت سے نوازا جن میں سے ایک علیشا ہیں۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا علیشا کا جنم عام لڑکوں کی طرح ہوا۔ لڑکوں جیسا جسم لڑکوں جیسی شکل سب نارمل نظر آ رہا تھا۔ جیسے جیسے علیشا بڑی ہونا شروع ہوئیں تو ان کی دلچسپی لڑکیوں والی چیزوں میں بڑھنے لگی۔ میک اپ کرنا، دوپٹہ اوڑھنا، لڑکیوں کے کپڑے پہننا اچھا لگنے لگا۔ شخصیت میں لڑکیوں کی عادات و اطوار نمایاں ہونا شروع ہو گئیں۔

بچپن میں گھر والے بچہ سمجھ کر پرواہ نہیں کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کی تشویش میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سمجھانے کے لئے مار پیٹ اور مختلف نوعیت کی سزائیں دینا شروع کر دیں۔ گھر سے باہر نکلتیں تو بچے چھیڑتے۔ سکول میں بھی ہتک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا۔ گھر والوں نے تنگ آ کر انھیں گھر میں قید کر دیا۔

علیشا آٹھ نو سال کی تھیں کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد ظلم اور جبر میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ گھر میں رہتے ہوئے دین سے لگاؤ اتنا بڑھ گیا کہ ہر سوال کا جواب قرآن اور حدیث سے دینے لگیں۔ جس کی وجہ سے بڑے بھائی قاسم کو علیشا سے خوف آنے لگا کہ کہیں خاندانی گدی پر یہ قابض نہ ہو جائیں۔

گھر میں علیشا سے چھٹکارا پانے کے منصوبے بننے لگے۔ ایک روز بھائی اور خالہ کہنے لگے کہ برازیل سے خالہ کی بیٹی نے تمھیں سپانسر کیا ہے۔ علیشا برازیل جانے کے لئے بھائی اور خالہ کے ساتھ راولپنڈی روانہ ہو گئیں۔ پارک ہوٹل میں ایک کمرہ لیا گیا۔ ایک دو دن گزرنے کے بعد بھائی نے علیشا کو کھانا لانے کے لئے باہر بھیجا۔ علیشا کھانا لے کر واپس آتی ہیں تو دیکھتی ہیں کہ بھائی اور خالہ کمرے سے غائب ہیں۔ باہر آتی ہیں تو ہوٹل کا مینجر کہتا ہے کہ آپ کے بھائی نے آج کے دن تک کا کرایہ ادا کیا ہے۔ آپ کمرہ خالی کرنے کی تیاری کریں۔ علیشا باہر لان میں بیٹھ کر رونا شروع کر دیتی ہیں۔

علیشا کو روتا دیکھ کر ایک آدمی ان کے پاس آتا ہے اور رونے کی وجہ پوچھتا ہے۔ علیشا کے بتانے پر انھیں ساتھ لے کر ہوٹل کے مینجر کے پاس جاتا ہے۔ تسلی ہو جانے پر انھیں انسانی ہمدردی کے تحت اپنے گھر لے آتا ہے۔ یہ شخص پاکستان آرمی میں ملازم تھا۔ اسے رہنے کے لئے چونگی نمبر 22 کے پاس دو کوارٹر ملے ہوئے تھے۔ ماں بیٹے نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کوارٹر علیشا کو دے دیا۔ انھیں دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا۔ علیشا پانچ چھ سال اس خاندان کے ساتھ رہیں۔

اسی دوران ریڈیو پاکستان میں فارسی کا ایک پروگرام شروع ہوا۔ علیشا نے نوکری کے لئے اپلائی کیا اور کامیاب رہیں۔ نوکری کے حصول کے بعد بھی مشکلات میں کمی نہیں آئی۔ ریڈیو پاکستان میں علیشا کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ریڈیو پاکستان کی ایک افسر خانم محمودہ ہاشمی نے علیشا کو ایسے کاموں میں لگا دیا جو ان کے کرنے کے نہیں تھے۔ ناروا سلوک کا یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ ایک دن خانم صاحبہ نے علیشا سے چائے لانے کو کہا۔ علیشا نے معذرت کرتے ہوئے نوکری ہی کو خیرباد کہ دیا۔

کچھ عرصے بعد علیشا کو ایرانی کلچرل سینٹر میں فارسی مترجم کی نوکری مل گئی۔ یہاں بھی علیشا کی چال ڈھال پر سوال اٹھنے لگے۔ انھیں مردوں کے طور طریقے اپنانے کو کہا گیا۔ جو ان کے لیے ناممکن تھا۔ علیشا بہت کوششوں کے باوجود اپنی چال ڈھال میں تبدیلی نہیں لاسکیں جس کی وجہ سے انھیں یہ نوکری بھی چھوڑنی پڑی۔

علیشا نے راولپنڈی کے افضل طبیہ کالج سے طب میں مختلف اسناد حاصل کر رکھی تھیں۔ نوکری سے تنگ آ کر 1985 ء میں ڈھوک الٰہی بخش میں ایک دواخانہ کھولا جسے رجسٹرڈ بھی کروایا گیا۔ علیشا دواخانہ چلانے کے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نماز بھی پڑھا کرتیں۔ دواخانے کے سامنے ایک زیارت واقع تھی جہاں علیشا باقاعدگی سے نماز کی ادائیگی کے لئے جایا کرتی تھیں۔ ایک روز مسجد میں کچھ تبلیغی جماعت کے لوگ آئے جو دوران گفتگو نبی پاکﷺ کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنے لگے جیسے کسی عام انسان کا ذکر کر رہے ہوں۔

اس بات پر علیشا کو بہت غصہ آیا۔ علیشا ان سے بحث کرنے لگیں اور اس دوران انھوں نے جماعت کے سربراہ کے لئے انتہائی سخت زبان استعمال کی۔ جس پر جماعت کے ایک کارکن نے کہا کہ یہ ہمای جماعت کے سربراہ ہیں۔ آپ ان کے کے لئے شائستہ الفاظ استعمال کریں۔ علیشا نے کہا کہ اگر آپ کو اپنے معمولی سے سربراہ کی گستاخی قبول نہیں تو پھر ہم سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ ہم حضورﷺ کے لئے معمولی الفاظ برداشت کریں۔ اس بات پر مسجد کے مولوی نے علیشا کو گلے لگا لیا اور کہنے لگا کہ آپ ٹھیک کہ رہی ہیں۔

مولوی صاحب کا نام حافظ عبدالرٰحمن تھا جو کہ خود بھی پیشہ ور حکیم تھے۔ علیشا ان کا بہت احترام کرتی تھیں۔ مسجد میں نماز پڑھنے کی خاطر انھوں نے مرد کا روپ دھار لیا۔ مردوں والے کپڑے، مردوں والی چال ڈھال اپنانے کی بھر پور کوشش کی۔ ایک روز مسجد میں ایک نمازی نے علیشا سے شلوار ٹخنوں سے اوپر کرنے کو کہا۔ جس پر مولوی صاحب بولے کہ یہ خواجہ سرا ہے۔ مولوی صاحب کی اس بات نے علیشا کا دل توڑ دیا۔ گھر آ کر خوب روئیں اور فیصلہ کیا کہ اب یہ مولوی صاحب کو خواجہ سرا بن کر دکھائیں گی۔ مسجد جانا چھوڑ دیا۔ خواجہ سراؤں سے مراسم بڑھانا شروع کر دیے۔

خواجہ سراؤں کے ساتھ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد علیشا کو خواجہ سراؤں کی دنیا بے رونق اور بے معنی لگنے لگی۔

علیشا نے خواجہ سراؤں کو خیر آباد کہ کر دوبارہ سے دواخانے کو وقت دینا شروع کر دیا۔ زندگی انہی مصیبتوں اور پریشانیوں کے ساتھ گزرتی چلی گئی۔ جو کماتیں دکھی اور بے سہارا لوگوں میں لٹا دیتیں۔

چند سال قبل علیشا کو شوگر کا مرض لاحق ہو گیا۔ احتیاط کے باوجود شوگر کنٹرول نہیں ہو سکی۔ پاؤں میں زخم بننا شروع ہو گئے۔ ڈاکٹر نے ٹانگ کاٹنے کا مشورہ دیا۔ علیشا ڈاکٹرز کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا علاج خود کرتی رہیں۔ مرض بڑھتا چلا گیا۔ باآخر دو ماہ قبل راولپنڈی کے ہولی فیملی ہاسپٹل میں علیشا کی ٹانگ کاٹ دی گئی۔ بے ترتیب ٹانکے لگانے کے بعد ڈاکٹرز نے علیشا کو گھر بھیج دیا۔

اس وقت علیشا کرائے کے مکان میں بے یار و مددگار پڑی ہیں۔ کمائی کا ذریعہ ختم ہو چکا ہے، مکان کا کرایہ اور دوائی خریدنے کے پیسے تک نہیں ہیں۔ نایاب علی، ریم شریف اور رانی خان جیسی خواجہ سراؤں کی بڑی لیڈرز علیشا کی کافی مدد کرچکی ہیں۔ لیکن ہزار دو ہزار کی مدد ان کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔

علیشا جینے کی امید کھو چکی ہیں۔ اپنے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے والے ہر شخص کو دل سے معاف کر چکی ہیں۔ ہر نماز میں خدا سے مدد کی دعا کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments