جانی خیل واقعہ۔ مزید غلطیوں سے ریاست کے وجود کو خطرے میں نہ ڈالیے


یوں تو پختونوں کو مذہب کے ساتھ جذباتی وابستگی کی وجہ سے افغانستان میں امریکہ کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے استعمال کیا جا رہا ہے لیکن افغانستان میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے طالبان تخلیق کرنے کے بعد انھیں پراکسی جنگوں میں وسیع تر ملکی مفاد اور تزویراتی گہرائی کے ناموں سے استعمال کیا جانے لگا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں برسرپیکار گڈ طالبان اور اس قبیل کے دوسرے غیرملکی جنگ جو جنھیں پاکستان کی طرف سے مختلف قسم کی سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں، انھیں وزیرستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہونے کے مواقع فراہم کیے گئے لیکن امریکی دباؤ کے بعد ان میں سے بعض کے خلاف فوجی کارروائیاں کی گئیں اور بہ ظاہر انھیں مار دیا گیا یا انھیں علاقے سے نکل بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا لیکن اب بھی بعض شدت پسند عناصر اپنے آقاؤں کے لئے بعض خدمات انجام دینے کے لئے متحرک ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً ان لوگوں کو سبق سکھانے کے لئے اپنی منھ زور طاقت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں جو وزیرستان میں فوجی آپریشنوں میں کی گئی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ اور ماورائے عدالت غائب کیے جانے والے شہریوں کے حق میں مظاہرے کرتے ہیں۔ گویا ٹارگٹ کلنگ اور غائب کیے جانے والے بھی پختون ہوتے ہیں، ان کے لئے آواز اٹھانے والے بھی پختون ہوتے ہیں اور ان ہی آواز اٹھانے والوں کو سبق سکھانے والے بھی پختون ہوتے ہیں۔ یوں ہر صورت میں پختون ہی نقصان اٹھاتے ہیں۔

قبائلی علاقہ جات کو خیبر پختون خوا میں شامل کرنے کے بعد بھی وہاں امن و امان کے کچھ مسائل ایسے ہیں جن کی طرف حکومت کی خصوصی توجہ درکار ہے لیکن بوجوہ حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ وزیرستان کے مختلف علاقوں میں اب بھی بعض شدت پسند ریاست کی چھتری تلے فعال ہیں اور پختون تحفظ موومنٹ کے خلاف جب ان کی ضرورت پڑتی ہے تو انھیں کارروائی کرنے کا اشارہ مل جاتا ہے یوں پختون کو پختون کے ذریعے مارنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

پی ٹی ایم کے کئی کارکنوں کو اس طریقے سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ عمل ایک دوسرے طریقے سے بھی جاری ہے۔ جنوبی وزیرستان میں اس وقت دو قبائل کے درمیان زمین کے تنازعے پر پرتشدد جھڑپوں تک بات پہنچ گئی ہے لیکن مقامی ذرائع کے مطابق یہ تنازعہ اتنا گمبھیر نہیں ہے کہ حل نہ ہو سکے۔ اگر حکومت اور مقامی انتظامیہ چاہے تو جرگے میں یہ مسئلہ بآسانی حل ہو سکتا ہے لیکن یہ مسئلہ اس لئے حل نہیں کیا جا رہا ہے کہ پختون آپس میں ہی لڑتے رہیں اور ان کی توجہ علاقے میں موجود طاقت ور ادارے کی من مانیوں کی طرف نہ جاسکے۔

گزشتہ دنوں ضلع بنوں میں جانی خیل کے علاقے میں چار کم عمر لڑکوں کی اندوہ ناک ہلاکت سے امن و امان کی خراب حالت کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جانی خیل بنوں شہر سے قریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی سرحد شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان سے ملتی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس علاقے میں اچھے اور برے شدت پسند باقاعدہ طور پر متحرک ہیں اور ان کی وجہ سے علاقے میں وقتاً فوقتاً تشدد کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں لیکن حکومت اور سکیورٹی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

جانی خیل کے چار کمسن لڑکوں کے بہیمانہ قتل پر علاقے کے لوگ مشتعل ہوچکے ہیں۔ وہ سات دن سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ اتوار کی صبح انھوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام ٓباد کی طرف مارچ شروع کیا لیکن دو کلومیٹر کے بعد انھیں مقامی پولیس نے روکا۔ پولیس نے مظاہرین پر شیلنگ کی اور آنسو گیس پھینکی۔ بی بی سی سے باتیں کرتے ہوئے مظاہرین کی قیادت کرنے والے ایک مشر ملک موید نے کہا کہ ”سات دن سے ہم لاشیں رکھ کر بیٹھے تھے اور ہمیں قتل ہونے والے لڑکوں کے بدلے پیسے لینے کا کہا جا رہا تھا لیکن ہم نے ان سب کو انکار کیا ہے کیوں کہ ہمیں پیسے نہیں امن چاہیے۔

” ان کا کہنا تھا کہ“ سنہ 2009 ء سے اب تک ہم نے قریباً گیارہ سو لاشیں اٹھائی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو کبھی کسی بہانے سے اور کبھی کسے بہانے سے مارا جا رہا ہے۔ ہم آئے روز لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ ”انھوں نے مزید کہا کہ“ جانی خیل ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اور یہاں فوج کی نو دس چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں لیکن امن پھر بھی نہیں ہے۔ ”ان کا مزید کہنا تھا کہ“ ہمارے مطالبات بڑے واضح ہیں۔ ہمیں گڈ اور بیڈ طالبان کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب ایجنسیوں کی پیداوار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے علاقے سے فوج کی چیک پوسٹیں ختم کی جائیں۔ پھر ہم خود اپنے علاقے میں امن قائم کر لیں گے۔ ”

واضح رہے کہ فروری میں شمالی وزیرستان میں ان چار خواتین کو بھی فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا جو ایک غیرسرکاری تنظیم کے لئے کام کر رہی تھیں اور مقامی خواتین کو مختلف ہنر سکھاتی تھیں۔

پہلے تو پختون علاقوں میں شدت پسندوں کو پالا پوسا گیا، ان کے ذریعے اپنے گھناؤنے مقاصد پورے کیے گئے اور پھر ان کے خلاف فوجی آپریشنوں کے ذریعے علاقے کے لوگوں کو در بہ در کیا گیا، ان کے مکانات اور تجارتی مراکز تباہ کر دیے گئے اور جب انھیں اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دی گئی تو جگہ جگہ چیک پوسٹوں کے ذریعے ان کے معمولات زندگی درہم برہم کردی گئی۔ چادر اور چاردیواری کا تحفظ پامال کیا گیا۔ چیک پوسٹوں پر مرد و خواتین، بچے، بڑے اور بوڑھوں تک کی تمیز کیے بغیر تلاشیوں کے بہانے ان کی عزت نفس اور انسانی وقار مجروح کیا گیا۔

اپنے گڈ طالبان کے ذریعے علاقے کے مشران اور ریاستی ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو راستے سے ہٹایا جانے لگا۔ طاقت کے ذریعے مظلوم کو احتجاج کے حق سے محروم کیا گیا۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے طاقت ور ریاستی ادارے کے حاکموں کے دل میں ذرا برابر رحم نہیں آتا۔ وہ نہ صرف ناسمجھ پختونوں کو اپنی پراکسی جنگوں کے لئے استعمال کرتے ہیں بلکہ ان کے علاقوں پر قبضہ کر کے انھیں غلاموں کی طرح محکوم بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ مین سٹریم میڈیا پر پابندی ہے کہ وہ مظلوم پر ڈھائے جانے والا ظلم نشر اور شائع نہیں کرے گا۔

ان کے احتجاج کو اہل وطن تک نہیں پہنچائے گا۔ جو پختون رہنما ان کی آواز اہل وطن تک پہنچا سکتے ہیں، انھیں ایسا کرنے سے بہ زور منع کیا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مظاہرے میں شرکت کے لئے جانے والے پختون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو کوہاٹ پولیس نے گرفتار کر لیا ہے جب کہ کرک کی پولیس نے ایم این اے محسن داوڑ کو گرفتار کر لیا ہے جو بنوں جانی خیل امن مارچ میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۔

ریاست کی مثال ماں کی سی ہے لیکن پاکستانی ریاست ماں نہیں ہے۔ وہ اپنی نام نہاد تزویراتی گہرائی اور پراکسی جنگوں کے لئے اپنے ہی بچوں کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے نہ صرف زندگیوں سے محروم کرتی ہے بلکہ انھیں احتجاج کے حق سے بھی محروم رکھتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو طاقت کے ذریعے دباتی ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر چپ رہیں، کوئی احتجاج نہ کریں۔ جس طریقے سے پاکستانی ریاست کو چلایا جا رہا ہے، اس سے یہ نہیں لگتا کہ یہاں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کوئی جمہوری حکومت موجود ہے جس کا مقصد ملک میں امن و امان کی بہ حالی اور عوام کے جان و مال کو تحفظ دینا ہے۔

جانی خیل واقعے میں چار جواں سال بچے ظالمانہ طریقے سے قتل کیے گئے، لوگوں نے ان کی لاشیں رکھ کر پرامن احتجاج کیا لیکن ملک کے منتخب وزیراعظم اور دوسرے عمائدین حکومت نے چپ کا روزہ رکھا ہے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں کسی بے گناہ کے قتل پر تو عرش ہلتا تھا لیکن اب عمران خان کی ریاست مدینہ میں چار جواں سال بچوں کے بہیمانہ قتل پر عرش نے ہلنے سے انکار کیا ہے۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ نے کئی دنوں کے بعد اس واقعے کا نوٹس لے لیا لیکن احتجاج کرنے والے مشران کو علم ہے کہ صوبے کے وزیراعلیٰ کے پاس اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ وہ محض عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں اور ان کا احتجاجی مارچ اسلام آباد جانے سے روکنا چاہتے ہیں۔

ریاست نے بلوچستان میں غلطیاں کیں تو وہاں ریاست سے علاحدگی کی تحریک شروع ہو گئی اور اب پختون علاقوں میں جس طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور خیبر پختون خوا کے طول و عرض میں جس طرح چیک پوسٹیں قائم کر کے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی آڑ میں بے گناہ لوگوں کو مارا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے پختونوں میں نفرت نے جڑیں پکڑنا شروع کی ہیں۔ سوات میں طالبانائزیشن کو دانستہ طور پر تخلیق کیا گیا تھا۔ پھر جس طریقے سے وہاں خوں ریزی کا بازار گرم کیا گیا اور علاقے کے لوگوں کو آئی ڈی پیز بننے پر مجبور کیا گیا، اس نے بھی اہل سوات کو سکیورٹی اداروں سے بدظن کر دیا۔

سوات میں امن بہ حال کرنے کے بعد وہاں ایک بڑی فوجی چھاؤنی قائم کی گئی اور سوات میں جہاں جہاں بھی خوب صورت مقامات تھے، ان پر فوج قابض ہو گئی۔ یہاں تک کہ بعض دوسرے عوامی مقامات کے علاوہ خوازہ خیلہ میں گرلز ڈگری کالج میں اب بھی فوج مقیم ہے اور لوگوں کے احتجاج کے باوجود کالج کی عمارت خالی نہیں کی جا رہی ہے۔ سوات میں چیک پوسٹوں پر لوگوں کے ساتھ جو تضحیک آمیز سلوک کیا جاتا تھا، اس پر جب لوگوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا تو چیک پوسٹیں ختم کردی گئیں اور اس میں اہم کردار پختون تحفظ موومنٹ نے ادا کیا تھا۔

سوات سکیورٹی چیک پوسٹوں کے بعد اب زیادہ پرامن ہے۔ وزیرستان میں بھی زیادہ تر چیک پوسٹیں پی ٹی ایم کے مسلسل احتجاجوں کے بعد ختم کردی گئیں لیکن اب بھی بہت سی چیک پوسٹیں عوام کے لئے وبال جان بنی ہوئی ہیں۔ وزیرستان اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں سکیورٹی اداروں کی مسلسل موجودگی اور ان کے ذریعے عوام کی معمول کی زندگی میں رخنے ڈالنے کا عمل اب لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ پختونوں نے دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشنوں کے نام پر ریاست کے تحفظ کا بوجھ بہت برداشت کیا، اب یہ بوجھ ریاست کو خود اٹھانا چاہیے اور پختونوں اور پختون علاقوں کو اس بوجھ سے آزاد کرا دینا چاہیے۔

اس جنگ زرگری میں ہزاروں پختون مائیں بیوہ، بچے یتیم اور والدین اپنے سہاروں سے محروم ہوچکے ہیں۔ جبری گم شدگیوں نے سیکڑوں گھرانوں کو اجاڑ کر کے رکھ دیا ہے۔ اب جہاں بھی ظلم ہوگا، پختون پر امن احتجاج کریں گے اور جب طاقت ور ریاستی ادارے انھیں احتجاج سے روکیں گے تو اس کے نتیجے میں عوام میں ریاست سے دوری اور بے گانگی کے مزید جذبات جنم لیں گے۔

ہم نے ماضی میں بھی بنگلہ دیش میں ان جذبات کو پروان چڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور ریاست کی لاپرواہی کی وجہ سے اس کا بڑا نقصان اٹھایا ہے۔ اب بھی اگر ریاست پختونوں کے زخموں پر مرہم لگانے کی بجائے ان پر نمک چھڑکنے کا عمل جاری رکھے گی تو اس کے نتائج بھی ماضی سے کسی طور مختلف نہیں ہوں گے۔ آپ اپنی بے محابا طاقت اور جبر کے ذریعے کسی کو وقتی طور پر دبا تو سکتے ہیں لیکن اسے ہمیشہ کے لئے جبر کی زنجیروں میں قید نہیں کر سکتے۔ زنجیریں جلد یا بہ دیر ٹوٹ جاتی ہیں لیکن اس کے نوکیلے ٹکڑے ریاست کے وجود کو بہت زخم لگا سکتے ہیں۔ اس لئے ریاستی اداروں کو اپنی غلطیوں کی سزا پر امن عوام کو نہیں دینا چاہیے۔ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے اور مزید غلطیاں کر کے ریاست کے وجود کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments