مغربی بنگال کا انتخاب اور ہندو مسلم شناخت: اویسی کی ریلی نماز پر اور یوگی کی جے شری رام کے نعروں پر ختم


असदुद्दीन ओवैसी

‘ممتا (مغربی بنگال کی وزیر اعلی) کہتی ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کو تحفظ دیا۔ یہ ممتا ہمیں کیا تحفظ فراہم کریں گی؟ صرف اللہ ہی ہمیں تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ وہ ہمیں غدار کہتی ہیں۔ ممتا دیدی، میں نہیں چاہتا کہ آپ میری عزت کریں۔ اللہ نے مجھے سب کچھ دیا ہے۔’

یہ کہنا تھا آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کا جو مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع میں انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔

مغربی بنگال میں اسدالدین اویسی کی یہ پہلی ریلی تھی اور ابھی انھوں نے صرف دو سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 25 مارچ کو مغربی بنگال کے چندرکونا قصبے میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ‘ممتا دیدی کے راج میں درگا پوجا کو روکا جارہا ہے۔ سرسوتی پوجا کی اجازت نہیں ہے۔ بنگلہ دیشی دراندازوں کا خیرمقدم کیا جارہا ہے۔ دو مئی کو جب ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت بنے گی، تب آپ آسانی سے درگا پوجا کرسکیں گے۔ ممتا دیدی گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد نہیں کرسکتیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ ان کا ووٹ بینک ہاتھ سے چلا جائے گا۔ ممتا دیدی نے جے شری رام کے نعرے پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔’

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

بہار اسمبلی انتخابات: ’بڑے اتحاد‘ کو مسلمان ووٹ سے فائدہ ہوا یا نقصان؟

یوگی ادتیہ ناتھ کی چار سالہ دور حکومت سے متعلق دعووں کی حقیقت کیا ہے؟

’یوگی ادتیہ ناتھ خدا نہیں ہیں‘

بی جے پی کے رہنما یوگی آدتیہ ناتھ کی اس تقریر پر جے شری رام کے نعرے لگتے ہیں تو اسدالدین اویسی کی ریلی میں قرآنی آیات پڑھی گئیں۔

تلک لگائے یوگی زعفرانی رنگ کے کپڑوں میں آتے ہیں تو اویسی اپنی ٹوپی اور شیروانی پہن کر آتے ہیں۔

نہ تو یوگی کا لباس بدلا ہے اور نہ ہی اویسی عام مقامات پر اپنا لباس بدلتے ہیں۔

असदुद्दीन ओवैसी

اویسی اور یوگی کی ریلی کی زبان کی بنیاد پر کیا موازنہ کیا جاسکتا ہے؟

کولکتہ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہمادری چیٹرجی کا کہنا ہے کہ بظاہر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں انتخابی جلسے ایک جیسے ہیں، لیکن یہاں موازنہ کرتے وقت ہمیں تھوڑا سا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر چیٹرجی کہتے ہیں ‘اگر آپ زبان کو ایک بکس سمجھیں اور اس بکسے یا ڈبے میں آپ چاہیں تو چاول ڈالیں یا آٹا، غصے کی زبان ایک جیسی ہوسکتی ہے لیکن غصے کی وجہ دیکھنا بہت اہم ہے۔ اگر غصے کی وجہ ایک نہیں ہے تو پھر موازنہ کرتے ہوئے ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا’۔

انڈیا

‘صرف زبان اور تیور کی سطح پر یکسانیت’

دونوں رہنماؤں کی تقریر کے بارے میں پروفیسر چیٹرجی کا کہنا تھا کہ تقریر بعض اوقات زبان کی سطح پر بھی یکساں ہوسکتی ہے لیکن جو لوگ ان دونوں کی تقاریر سن رہے ہیں ان لوگوں سے بات کریں تو سمجھ میں آتا ہے ۔

پروفیسر چیٹرجی نے کہا کہ مضبوط اور کمزوروں کی سیاسی زبان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

‘دونوں رہنماؤں کے درمیان مماثلت صرف زبان اور لہجے کی سطح پر ہے۔ سیاسی معیار میں نہیں۔ سیاسی معیار سے میرا مطلب ہے کہ ایک رہنما اپنی تعداد میں زیادہ ہونے کے بل بوتے پر بول رہا ہے تو دوسرا اپنی غربت، ناخواندگی، کم غذائیت اور تفریق کی وجہ سے بول رہا ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا: ‘ممکن ہے کہ اویسی کی تقریر میں مذہبی لائن ہو لیکن انکے حامی اپنے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر ناراض ہیں۔ انھیں تشویش ہے کہ ایک مسلمان بچے کو مندر میں پانی پینے کی وجہ سے بے دردی سے مارا پیٹا گیا ۔ اویسی کی تقریر اس کمیونٹی کو بیدار بھی کر رہی ہے کہ اب آپ کی آواز بلند کریں اور متحد ہوجائیں۔’

پروفیسر چیٹرجی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ معاشی عدم مساوات کا رشتہ صرف مسلمانوں، دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ ہی کیوں ہے؟

‘اگر ان میں سے کوئی لیڈر اس قدر منقسم انتخابی سیاست کے ماحول میں لوگوں کو تفریق پیدا کررہا ہے تو غلط کیا ہے؟ کیا ہمیشہ مسلم سیاستدان ہی آئینی ذمہ داری نبھائیں گے؟ موجودہ انتخابی سیاست میں یہ ممکن نہیں ہے۔’

اویسی کو شیر کہنے والے ان کے حامیوں کا موقف

اسد الدین اویسی کی ریلی میں زیادہ تر نوجوان شریک ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان نوجوانوں سے بات کریں تو ان کی ناراضگی واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ وہ کھل کر کہتے ہیں کہ حکومت ان کے ساتھ کھلے عام امتیازی سلوک کر رہی ہے۔ اویسی کی آمد پر نوجوان نعرے لگا رہے تھے، ‘دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا ، شیر آیا۔’

ریلی میں شریک 30 سالہ محمد حمزہ بھی نعرے لگارہے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اسد الدین اویسی کو شیر کیوں کہتے ہیں تو جواب میں حمزہ نے کہا، ‘شیر کو آپ صرف جانور کی طرح نہ دیکھیں۔ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے متعدد بل منظور کیے گئے۔ انڈیا میں بہت سی جماعتیں ہیں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں۔ لیکن اگر کسی نے ہمت اور جرات سے احتجاج کیا تو وہ ہمارے شیر اویسی صاحب تھے۔ اگر کوئی بہت سارے لوگوں میں بولنے کا حوصلہ بڑھا سکتا ہے تو اس میں شیر کی ہمت ہے۔ اسی لیے ہم انھیں شیر کہتے ہیں۔’

असदुद्दीन ओवैसी की रैली

محمد آصف جادھو پور سے اویسی کو سننے آئے ہیں۔ آصف گریجویشن کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ اسدالدین اویسی کی اس لیے حمایت کر رہے ہیں کیونکہ ‘وہ ہمارے بارے میں بات کرتے ہیں۔ سی اے اے قانون کے بارے میں اگر کسی نے بات کی تو وہ اویسی صاحب تھے۔’

ان کا کہنا ہے کہ حکومت یہ دلیل دے رہی ہے کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان میں مبینہ طور پر ستم زدہ غیر مسلم اقلیتوں کو یعنی صرف ہندؤں کو انڈیا کی شہریت دی جائے گی۔

‘ٹھیک ہے، شہریت ضرور دیں، لیکن مسلمان ہونے کے ناطے جو ناانصافی ہمارے ساتھ ہورہی ہے، اس کا کیا کریں گے۔ اس ناانصافی کی بنیاد پر کون سا ملک ہمیں شہریت دے گا؟ شیعوں اور احمدیوں کے ساتھ بھی پاکستان میں غیر منصفانہ سلوک کیا جارہا ہے۔ آپ انھیں بھی شہریت دیں۔ اس سے یہ واضح ہے کہ یہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے۔’

کیا ممتا واقعی درگا پوجا نہیں ہونے دے رہیں؟

دوسری طرف یوگی آدتیہ ناتھ نے ریلی میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی پر الزام لگایا کہ وہ درگا پوجا نہیں ہونے دے رہیں۔

شنکر شورین بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے جھنڈے کو تھامے ہوئے ہیں۔ ان کی ٹی شرٹ بھی زعفرانی رنگ کی ہے۔ جب ان سے پوچھا کہ کیا یوگی آدتیہ ناتھ کی یہ بات سچ ہے کہ ممتا راج میں درگا پوجا کی اجازت نہیں ہے، تو شنکر سورین نے جوش سے کہا ‘ہاں کسی کو اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ یوگی درست کہتے ہیں۔’

لیکن جب شنکر سے پوچھا گیا کہ وہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ انھیں اجازت نہیں دی جارہی ہے تو وہ کوئی ٹھوس جواب نہیں دے سکے۔ جب ان سے اسی حوالے سے مزید سوالات پوچھنا شروع کیے تو وہ جیے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

BJP

BJP

اسی ریلی میں موجود ایک نوجوان نے اپنا نام سدھا پنڈت بتایا جو مسلسل جے شری رام کے نعرے لگارہے تھے۔

مائیک کو دیکھ کر وہ بولے مجھ سے کچھ پوچھیں۔ میں نے کہا بتاؤ کیا کہنا ہے؟

سدھا پنڈت نے شروعات ہی اس بات سے کی کہ ‘ٹی ایم سے (ممتا بینرجی کی سیاسی جماعت) کے تمام لوگ پاکستانی ہیں۔ جے شری رام ، جے شری رام۔’

یوگی آدتیہ ناتھ کے جلسے میں جن جوانوں سے میری ملاقات ہوئی، انھوں نے ملازمت، تعلیم، جمہوری حقوق اور سیکولرازم کے بارے میں بات نہیں کی لیکن اسدالدین اویسی کی ریلی میں جن نوجوانوں سے میری ملاقات ہوئی انھوں نے ان امور پر بات کی۔

اس بار مغربی بنگال کے الیکشن میں کیا فرق ہے؟

کولکتہ کے سینیئر صحافی آشیش گھوش کا کہنا ہے کہ اس بار کے انتخابات مغربی بنگال کی انتخابی سیاست میں بالکل مختلف اور نئے انتخابات ہیں۔

گھوش کہتے ہیں ‘شناخت کی سیاست یہاں کبھی بھی اہم نہیں رہی۔ معاشرے میں ذات پات اور مذہب عملی طور پر بھی موجود ہے، لیکن سیاست میں ان کی اہمیت نہیں تھی۔ لیکن اس انتخاب میں بی جے پی نے کھلے عام اس نظریے کا استعمال کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔’

दुर्गा पूजा

گھوش کہتے ہیں ‘پہلے یہاں یہ سوال نہیں اٹھتا تھا کہ اگر ہماری ذات یا مذہب کے بہت سے لوگ ہیں تو پھر ہمیں ان نشستوں کی ضرورت ہے لیکن اب یہ ہو رہا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس سے براہ راست کانگریس، کمیونسٹ پارٹی انڈیا (مارکسٹ) اور آل انڈیا ترنامول کانگریس (ٹی ایم سی) کی سیاست کو نقصان پہنچے۔ ٹی ایم سی کی جانب سے سیاست میں نمائندگی کا سوال شناخت کی سیاست کے دائرے میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ لیکن بی جے پی نے اسے کئی طریقوں سے ابھارا ہے۔

‘ کانگریس مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر نہیں سوچتی’

انڈیا کے سابق صدر پرنب مکھرجی کے بیٹے ابھیجیت مکھرجی سے جب پوچھا گیا کہ کانگریس نے مسلمانوں اور دلتوں میں کوئی قیادت کیوں نہیں پیدا کی تواس کے جواب میں مکھرجی کہتے ہیں کہ کانگریس مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر نہیں سوچتی۔

‘میرے والد مرشد آباد سے رکن پارلیمنٹ ہوتے تھے جہاں 72 فیصد مسلمان ہیں۔ وہاں تو ہندو ہمیں کم ووٹ دیتے تھے۔ بنگال کے عوام سیکولر رہے ہیں۔’

لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کانگریس کے پاس 72 فیصد مسلم آبادی والے لوک سبھا حلقے میں مسلم قیادت نہیں ہونی چاہیے اور کیا وہاں سے مسلمانوں کو موقع نہیں دیا جانا چاہیے تھا، تو اس پر ابھیجیت مکھرجی کا کہنا تھا کہ’طاقتور ہی زندہ رہتا ہے۔‘

ابھیجیت مکھرجی کی جانب سے دی گئی اس دلیل پر پروفیسر ہمادری چیٹرجی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال اٹھانے میں 70 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے کہ مرشد آباد میں مسلمانوں کے درمیان کیوں کوئی رکن پارلیمنٹ کیوں نہیں بنایا جارہا ہے۔

چٹرجی کا کہنا ہے ‘اب وہی سوال اٹھایا جارہا ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ جوابی فرقہ واریت کا معاملہ ہے۔ اگرچہ یہاں کوئی علیحدہ الیکٹوریٹ نہیں ہے، لیکن 72 فیصد آبادی کو چالاکی سے موقع نہ دینے کی دلیل اب کام نہیں کرے گی۔’

असदुद्दीन ओवैसी

‘ممتا کی پوجا کرنا معمول ہے تو میرا نماز پڑھنا فرقہ واریت کیوں لگتی ہے؟’

ریلی کے اختتام کے بعد اسدالدین اویسی نے شام چار بجے کے قریب مغربی بنگال کے ساگردیہی اسٹیشن پر نماز پڑھائی اور ادھر یوگی آدتیہ ناتھ نے جیے شری رام کے ساتھ ریلی کا اختتام کیا۔

اسدالدین اویسی اس دلیل کو مسترد کرتے ہیں کہ ان کی سیاست پولرائزیشن میں اضافہ کررہی ہے۔

‘ممتا کی پوجا کرنا معمول کی بات ہے تو میرا نماز پڑھنا فرقہ واریت کیوں لگتی ہے؟ اب یہ نہیں چلے گا۔’

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp