پاک بھارت امن اور پاکستان میں آئینی جمہوریت: مشکل مگر ناگزیر سفر


دوشنبے میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے بھارتی ہم نصب جے شنکر کا ’آمنا سامنا ‘ تو کئی بار ہؤا لیکن بقول شاہ محمود قریشی نہ ’ انہوں نے صاحب سلامت کی اور نہ ہی میں نے کوشش کی‘۔ ایک بھارتی سفارت کار کے مطابق ’علیک سلیک ہوجاتی لیکن ’میڈیا نے پاک بھارت ٹاکرے کے مناظر دکھا دکھا کر اس معاملے کو حساس کر دیا ہے، اس لئے اب یہ معاملہ دھیما چلے گا‘۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے یوم پاکستان پر بھارتی وزیر اعظم کے تہنیتی پیغام کا جواب دیتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ ’پرنالا وہیں رہے گا‘۔ یعنی پہلے کشمیر پر بات کرو پھر اعتماد سازی بھی ہوجائے گی۔
جو حالت خارجہ معاملات میں دکھائی دیتی ہے، تقریباً وہی حال پاکستانی سیاست کا بھی ہے۔ اپوزیشن اتحاد پاکستان جمہوری تحریک میں اختلاف کی ہنڈیا چوراہے کے بیچ پھوٹنے کے بعد عمران خان کابینہ میں رد و بدل کے ذریعے اپنی حکومت کی بقایا نصف مدت میں کارکردگی دکھانے کی تیاری کررہے ہیں۔ جبکہ پی ڈی ایم کے اہم لیڈروں مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کی علالت کے باعث سیاسی بیان بازی کا سلسلہ مدھم پڑا ہے۔ یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاملات خراب کرنے میں دشمنوں کے علاوہ دوستوں نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ اسحاق ڈار جیسے لیڈر جنہیں مڈل مین کا نام دیا جاسکتا ہے اور جن کا کام فیصلوں کی بجائے پیغام رسانی کا ہے، انہوں نے مناسب وقت پر نواز شریف تک معلومات پہنچانے کا فرض ادا نہیں کیا۔ اور اپنےطور پر ہی پارٹی کی حتمی پوزیشن کے بارے میں حکم صادر کردیا۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ مواصلت کے اس ناقص طریقہ نے کس حد تک حالات خراب کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ اور اگر بروقت آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان براہ راست گفتگو کا راستہ مسدود نہ کیا جاتا تو کیا معاملات کو خراب ہونے سے بچایا جاسکتا تھا۔ البتہ یہ مزید واضح ہوگیا ہے کہ جب سیاسی پارٹیاں اہم قومی معاملات میں انفرادی فیصلوں پر انحصار کریں گی اور فیصلہ سازی اور دوسری پارٹیوں سے مواصلت کا کوئی ٹھوس اور جمہوری میکنزم دریافت نہیں کیا جائے گا تو درمیان والے لوگ ضرور اپنی عقل کے مطابق پارٹی کی ’رہنمائی‘ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ظاہر ہورہا ہے کہ اسحاق ڈار کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں کچھ اور لوگ بھی ضرور ہوں گے جو شاہ سے زیادہ شاہ کے مفادات کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح غلط فہمیاں اور بدگمانیاں جنم لیتی ہیں۔ ملک کی سیاسی تاریخ کے ایک ایسےمرحلہ پر جب کہ عظیم تر قومی مفادات داؤ پر لگے ہیں، تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت کو اس پہلو پر بطور خاص غور کرنا چاہئے۔
مثالی صورت تو یہی ہوگی کہ کسی بھی سیاسی معاملہ پر ہرپارٹی کا بااختیار فورم غور و خوض کرے اور ان فیصلوں کی مواصلت کے لئے چند بااختیار لوگ مقرر کئے جائیں۔ اور دیگر لوگوں کو بیان دینے، مداخلت کرنے ، کسی اہم معاملہ پر اپنا خصوصی زاویہ نگاہ پیش کرنے اور اسے قیادت کا نقطہ نظر بتانے کا سلسلہ روکا جائے۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں ایسا ہوتے بھی دہائیاں صرف ہوں گی تاہم فوری تدارک کے لئے پارٹیوں کی قیادت کو ایک دوسرے سے براہ راست مواصلت کا کوئی منظم طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی معاملہ پر اختلاف کومیڈیا مباحث کا حصہ بننے سے پہلے ہی یہ طے کیا جائے کہ اس موضوع پر کون اور کس پہلو سے بات کرنے کا مجاز ہوگا۔ اس طرح ملک کے سیاسی ماحول میں اختلاف کی شدت کم ہوسکے گی اور سیاسی تعاون کا ماحول بہتر ہوسکے گا۔
پی ڈی ایم میں سامنے آنے والے اختلافات کے تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ پی ڈی ایم کو صرف ایک شخص کے سیاسی نقطہ نظر کا نمائیندہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی اسے صرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاسی ضرورتیں پورا کرنے والا فورم بنانے کی کوشش کی جائے۔ یہ بھی بہتر ہوگا کہ قیادت کسی فیصلہ کے درست اور غلط کی بحث پی ڈی ایم کے اجلاس میں کرے اور ایسے موقع پر ہونے والی حساس گفتگو کو یک طرفہ طور سے میڈیا تک پہنچانے کا شعوری یا لاشعوری اہتمام نہ کیا جائے۔ پی ڈی ایم 10 سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ہے۔ البتہ گزشتہ چند ہفتے کے دوران جو صورت حال ملاحظہ کی گئی ہے اس میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ فورم صرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے متعلق ہے اور مولانا فضل الرحمان کو صرف اس لئے صدر بنا دیا گیا کیوں کہ دونوں بڑی پارٹیاں ایک دوسرے کے کسی نمائیندے کو اتحاد کی سربراہی کے لئے قبول نہ کرتیں۔ سیاسی سرگرمی میں مولانا فضل الرحمان کو ’سینڈ وچ‘ بنانے سے مولانا یا جمیعت علمائے اسلام سے زیادہ ان اصولوں کو نقصان پہنچے گا جن کی بنیاد پر پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم قائم کیا گیا تھا۔
میڈیا اگرچہ پاکستان جمہوری تحریک کے خاتمہ کا اعلان کرچکا ہے اور بظاہر شواہد بھی یہی بتا رہے ہیں کہ بداعتمادی کی دھند اتنی گہری ہوچکی ہے کہ سیاسی لیڈر اعتدال و ہوشمندی کی بجائے، غصہ اور جذبات سے مغلوب ہو کر نتائج تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس طریقے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ملک میں تحریک انصاف کی حکومت نے اپوزیشن سیاسی قائدین اور پارٹیوں کو نظر انداز کرنے کے علاوہ انہیں ’بے وقعت‘ کرنے کی جس حکمت عملی کو اختیار کیا ہے، اس کی روشنی میں سب اپوزیشن لیڈروں کو سمجھنا چاہئے کہ ان کا آپس میں سر پھٹول، ان کی ذاتی اور سیاسی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔ اس لئے الزام تراشی کی بجائے ، اعتماد سازی کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری نے ذاتی سطح پر مواصلت اور سیاسی حکمت عملی کے لئے احترام اور تعاون کا جو تعلق استوار کیا تھا، وہ دونوں پارٹیوں میں دوسرے درجے کی قیادت میں بہت سے لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ یہ دونوں نوجوان سیاسی لیڈر اگر اپنی اپنی صفوں میں مزاحمت کے ان عوامل کو سمجھ کر اشتراک عمل کا کوئی طریقہ دریافت کرسکیں تو اس سے جمہوریت کا راستہ بھی ہموار ہو گا اور ملک کو ایسی نئی سیاسی قیادت بھی میسر آسکے گی جو پرانی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے ، ان سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا چاہے گی۔ پی ڈیم ایم کے احتجاجی جلسوں میں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری یہ دہراتے رہے ہیں کہ ان کی پارٹیاں مختلف منشور کے لئے کام کررہی ہیں اور انتخابات میں اپنے پارٹی پروگرام کے مطابق ہی حصہ لیں گی یا ایک دوسرے کا سیاسی مقابلہ کریں گی۔ یہ بیان سیاسی بلوغت کا اشارہ ہے لیکن اسے عملی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم میں اختلاف کے حوالے سے جو صورت حال دیکھنے میں آئی ہے، اس میں یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو اختلاف میں احترام قائم رکھنے کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ صحت مند سیاسی جمہوری کلچر کے فر وغ کے لئے احترام کا رویہ اختیار کرنا بے حد اہم ہوگا۔
پی ڈی ایم کی تمام تر ناکامی کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس پلیٹ فارم کے قائم ہونے کے بعد ہی حکمران جماعت و اسٹبلشمنٹ نے اپوزیشن کو تسلیم کیا اور ان کی نمائیندہ حیثیت کو اہمیت دی گئی۔ پاکستانی سیاسی تناظر میں یہ بہت بڑی کامیابی ہے ورنہ وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن لیڈروں کو چور لٹیرے قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح اسٹبلشمنٹ بھی اپنے تمام انڈے تحریک انصاف کی ٹوکری میں رکھ کر، یہی پیغام عام کرتی رہی ہے کہ ملک کی دوسری دونوں بڑی پارٹیاں اور ان کی قیادت کی ملکی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ رویہ اب تبدیل ہؤا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومتوں کی ناقص کارکردگی نے بھی اسٹبلشمنٹ کو ہوش کے ناخن لینے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ تبدیلی قلب کے کچھ معلوم یا نامعلوم عوامل بھی کارفرما رہے ہیں۔ لیکن پی ڈی ایم کی طرف سے سیاسی طاقت کے مظاہرے کو بھی ایک اہم عنصر کے طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اگر اپنی اس کامیابی کا ادراک کرسکیں تو وہ اس پلیٹ فارم کو مکمل طور سے تباہ ہونے سے بچانے کی کوشش کریں گی۔
سیاسی تقریر اور عملی سیاسی صورت حال میں فرق ہوتا ہے۔ تقریروں میں نعروں کے ذریعے آئیڈیل منظر نامہ کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ عملی طور سے یہ سب نعرے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔ سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت ختم کرنا ایک آئیڈیل پوزیشن ہے لیکن بوجوہ اس آئیڈیل تک پہنچنے کے لئے ملک، سیاسی پارٹیوں اور اسٹبلشمنٹ کو طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔ منزل کا تعین کرنے کے بعد بھی سفر درپیش ہوتا ہے۔ اس سفر کی مشکلات بھی پیش نظر رہنی چاہئیں اور اس کے لئے زاد راہ بھی فراہم ہونا چاہئے۔ لیکن منزل تک پہنچنے کا یقین راسخ ہونا ضروری ہے۔ پاکستانی سیاسی لیڈروں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وقتی مجبوریوں کے تحت چھوٹی موٹی مفاہمت کے باوجود اصل منزل تک سفر جاری رہے گا۔
پاکستان میں حقیقی اور مثالی جمہوریت کا قیام بھی پاک بھارت تعلقات میں قابل عمل مفاہمت ہی کی طرح مشکل اور دشوار سفر ہے۔ بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے اور اچھے پڑوسیوں کی طرح مل کر رہنے کا کوئی راستہ کھوجنا ہی اصل چیلنج ہے۔ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ دونوں ملکوں کو کسی’ کامن گراؤنڈ‘ پر متفق ہونا پڑے گا کیوں کہ خطے کے پونے دو ارب لوگوں کی زندگی اور بہبود اسی سے وابستہ ہے۔ اسی طرح پاکستان میں آئینی جمہوریت کا راستہ دشوار ہونے کے باوجود ترک نہیں کیا جاسکتا۔
اسٹبلشمنٹ کو بھی جلد یا بدیر یہ سمجھنا ہوگا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات اور معاشی بحالی کے وسیع اور عظیم تر مقاصد دراصل ملک میں آئینی جمہوریت کو مستحکم کرنے سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔ مستقبل قریب اس بات کا تعین کرے گا کہ کون لوگ اس سفر کو آسان بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments